خوشحال خان خٹک ۔۔۔ آئی جو میرے کان میں پازیب کی صدا

آئی جو میرے کان میں پازیب کی صدا گھبرا کے میری جاگ کھلی، اُٹھ کھڑا ہوا یہ حور ہے، پری ہے کہ انساں ہے، کیا ہے یہ؟ پہروں میں اپنے دل میں یہی سوچتا رہا کالی بھنویں کمانیں تھیں اور پلکیں تیر تھیں موتی کی طرح دانت تھے، ہونٹوں میں قند تھا اے بے بصر! نگاہ اٹھا کر نظارہ کر اُس نے عجب اَدا سے مجھے دیکھ کر کہا تو جانتا نہیں ہے مَیں وہ مہ جبین ہوں پیدا جواب جس کا زمانہ نہ کر سکا طالب ہیں میرے بوسہء…

Read More