ہمزاد ۔۔۔۔۔۔ نجیب احمد

ہمزاد ۔۔۔۔۔ مجھے کوزہ بنانے کا ہنر اب تک نہیں آیا ازل سے چاک پر آنسو گندھی مٹی دھری ہے مگر کچھ ذہن میں واضح نہیں ہے تصور ہے بھی تو بس ایک دھندلا سا تصور تصور ، جو کسی بھی نقش میں ڈھلتا نہیں ہے مرے اندر کوئی تصویر گڈمڈ ہو رہی ہے نہ جانے کون مجھ میں رو رہا ہے رواں آنکھوں سے پانی ہو رہا ہے درونِ ذات گہرے پانیوں میں بسنے والی سرد ظلمت کا تماشا ہے دکھائی کچھ نہیں دیتا دیے میں تیل جلتا جا…

Read More

نئی صبح ۔۔۔۔ اختر الایمان

نئی صبح ۔۔۔۔۔۔۔ کالے ساگر کی موجوں میں ڈوب گئیں دھندلی آشائیں جلنے دو یہ دیے پرانے خود ہی ٹھنڈے ہو جائیں گے بہہ جائیں گے آنسو بن کر روتے روتے سو جائیں گے اندھے سایوں میں پلتے ہیں مبہم سے غمگین فسانے دکھ کی اک دیوار سے آ کر ٹکرا جاتے ہیں پروانے دورِ فسردہ کی انگڑائی    لَے بن بن کر ٹوٹ رہی ہے سرخ زباں کی نازک لَو پر جاگ رہی ہے ایک کہانی ٹوٹے پھوٹے جام پڑے ہیں سوئی سوئی ہے کچھ محفل دھوپ سی ڈھل…

Read More

فالتو سامان ۔۔۔۔۔۔ نجیب احمد

فالتو سامان ………….. مرا کمرہ مرا گھر ہے مرے گھر پر مرے بچوں نے قبضہ کر لیا ہے کتابوں سے بھرے کمرے میں اک کرسی تھی اور اک میز تھا اور                       میز پر کاغذ قلم کے ساتھ ہی تصویر رکھی تھی تری تصویر رکھی تھی نگارِ جاں! تری تصویر رکھی تھی تلاشِ رزق میں گھر سے نکلتا، شام کمرے میں قدم رکھتا کتابوں کی طرف بڑھتا تو دن بھر کی تھکن کافور ہو جاتی رگ و پے میں توانائی…

Read More

کاروبار …… مصطفیٰ زیدی

کاروبار ۔۔۔۔۔۔۔ دماغ شل ہے ، دل ایک اک آرزو کا مدفن بنا ہوا ہے اِک ایسا مندر جو کب سے چمگادڑوں کا مسکن بنا ہوا ہے نشیب میں جیسے بارشوں کا کھڑا ہوا بےکنار پانی بغیر مقصد کی بحث ، اخلاقیات کی بےاثر کہانی سحر سے بےزار، رات سے بےنیاز لمحات سے گُریزاں نہ فِکرِ فردا  نہ حال و ماضی، نہ صبحِ خنداں ، نہ شامِ گِریاں پُکارتا ہے کوئی تو کہتا ہوں  اِس کو سن کر بھی کیا کرو گے اِدھر گزر کر بھی کیا ملے گا ،…

Read More

غلام محمد قاصر ….. یوں تو صدائے زخم بہت دور تک گئی

یوں تو صدائے زخم بہت دور تک گئی اِک چارہ گر کے شہر میں جا کر بھٹک گئی خوشبو گرفتِ عکس میں لایا اور اس کے بعد میں دیکھتا رہا تری تصویر تھک گئی گُل کو برہنہ دیکھ کے جھونکا نسیم کا جگنو بجھا رہا تھا کہ تتلی چمک گئی میں نے پڑھا تھا چاند کو انجیل کی طرح اور چاندنی صلیب پہ آکر لٹک گئی روتی رہی لپٹ کے ہر اک سنگِ میل سے مجبور ہو کے شہر کے اندر سڑک گئی قاتل کو آج صاحبِ اعجاز مان کر…

Read More

آفتاب اقبال شمیم ۔۔۔۔۔ میں جب بھی چھونے لگوں، تم ذرا پرے ہو جاؤ

میں جب بھی چھونے لگوں، تم ذرا پرے ہو جاؤ یہ کیا کہ لمس میں آتے ہی دوسرے ہو جاؤ یہ کارِ عشق مگر ہم سے کیسے سرزد ہو الاؤ تیز ہے، صاحب! ذرا پرے ہو جاؤ تمھاری عمر بھی اس آب کے حساب میں ہے نہیں کہ اس کے برسنے سے تم ہرے ہو جاؤ یہ گوشہ گیر طبیعت بھی ایک محبس ہے ہوا کے لمس میں آؤ، ہرے بھرے ہو جاؤ کبھی تو مطلعِ دل سے ہو اتنی بارشِ اشک کہ تم بھی کھل کے برستے ہوئے کھرے…

Read More