جاں آشوب ۔۔۔ خالد علیم

جاں آشوب ۔۔۔۔۔۔۔ کیا نکلا سنگِ چقماق کے دَور سے یہ نادان پتھر بن کر رہ گیا پورا، مٹی کا انسان جذبے پتھر، سوچیں پتھر، آنکھیں بھی پتھر تن بھی پتھر، من بھی پتھر، پتھر ہے وجدان اپنے پتھر سینے میں ہے پتھر کی دھڑکن اپنے پتھر ہونٹوں پر ہے پتھر کی مسکان آج بھی ہم پتھر کی پوجا پاٹ میں بیٹھے ہیں اپنے ہاتھ سے آپ تراش کے پتھر کا بھگوان ۔۔۔۔ ہم نے شہر بنائے، ہم نے گھر آباد کیے ہم نے انسانوں کو دی تہذیبوں کی پہچان…

Read More

غلام محمد قاصر ….. یوں تو صدائے زخم بہت دور تک گئی

یوں تو صدائے زخم بہت دور تک گئی اِک چارہ گر کے شہر میں جا کر بھٹک گئی خوشبو گرفتِ عکس میں لایا اور اس کے بعد میں دیکھتا رہا تری تصویر تھک گئی گُل کو برہنہ دیکھ کے جھونکا نسیم کا جگنو بجھا رہا تھا کہ تتلی چمک گئی میں نے پڑھا تھا چاند کو انجیل کی طرح اور چاندنی صلیب پہ آکر لٹک گئی روتی رہی لپٹ کے ہر اک سنگِ میل سے مجبور ہو کے شہر کے اندر سڑک گئی قاتل کو آج صاحبِ اعجاز مان کر…

Read More