شکیب جلالی ۔۔۔ رباعیات

تقدیسِ شباب سے شرارے پھوٹے انگڑائی کہ جیسے ماہتابی چھوٹے یوں اُٹھ کے گریں وہ شوخ بانہیں گویا اک ساتھ فلک سے دو ستارے ٹوٹے ۔۔۔۔۔۔۔ مے خانہ بدوش یہ گلابی آنکھیں زلفیں ہیں شبِ تار تو خوابی آنکھیں مستی کے جزیروں سے پکارا کوئی ساون کی پھواریں یہ شرابی آنکھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ گل رنگ یہ زرکار سی بھوری کرنیں سیماب سے دھوئی ہوئی نوری کرنیں بلور سی بانہوں پہ دمکتے ہوئے بال مہتاب کی قاشوں پہ ادھوری کرنیں ۔۔۔۔۔۔۔ انگ انگ میں بہتے ہوئے مہ پارے ہیں کس درجہ شرر…

Read More

اقتدار جاوید … کیڑی کی ماں

کیڑی کی ماں ۔۔۔۔۔۔۔۔ چھٹی کی گھنٹی بجی لڑکے اسکول سے شہد سے میٹھے اپنے گھروں کی طرف ایسے مڑتے نظر آئے تھے شہد کی مکھی جیسے پلٹتی ہے چھتے کی جانب مسرت کا سیلاب گلیوں میں، کونوں میں، رونق بھرے دونوں بازاروں میں بہہ رہا تھا شریروں کا مجمع تھا یا نرم گڈوں کی ڈوریں کٹی تھیں تھا ’’بو کاٹا‘‘ کا شور گڈے دکانوں کے چھجوں، درختوں کے ڈالوں، منڈیروں کے کونوں پہ ہنستے ہوئے گر رہے تھے زمانے کا میدان ڈوبا ہوا تھا کئی رنگوں میں! نانبائی کے…

Read More

اقتدار جاوید ۔۔۔ دبلی پتلی

دبلی پتلی ۔۔۔۔۔۔۔ شگن بھری خواب سے جڑی ہے زمانہ رفتار سے بندھا ہے (زمانے کو آپ زید کہہ لیں کہ بکر جانیں) شگن بھری کا وہ خواب، وہ آفتاب روشن ہے جو افق کے محیط کو روندتا نکلتا ہے شب کے اسفنج سے سیاہی نچوڑتا ہے وہ نیند اور نیند کے اندھیروں کی کوکھ کو توڑتا ہے وہ وقت کی یخ  آلود  جھیل کو چھیدتا ہے تو ثانیے ابلتے ہیں جیسے…جیسے… شگن بھری کی بخار والی سفید آنکھوں سے جیسے موتی ٹپک رہے ہوں زمانہ رفتار سے بندھا ہے…

Read More

ارشد معراج ۔۔۔ وہ کوئی اور تھا

وہ کوئی اور تھا ———— روشنی میرے حصے کی تھی اپنی رفتار کو تیز کر نہ سکی میں بھٹکتا رہا اِس طرف اُس طرف میں کہ صحراؤں میں دھول اُڑاتے ہوۓ رتھ پہ بیٹھا ہوا اک شکستہ بدن کون پہچانتا میرے کھیسے میں رکھے ہوۓ اُس کی قربت کے ٹکڑے بکھرتے رہے میں خزاں کی گھنی وادیوں میں کنویں کی طلب کا سہارا لیے دم بدم پا برہنہ رہا بوجھ بھیجے میں تھا پر یہ کاندھے مرے سوتری کی طرح روز کھنچتے رہے ان پہ رکھا ہوا میرا سر اِس…

Read More

اِسی دن ۔۔۔ غلام محمد قاصر

اِسی دن ۔۔۔۔۔ اِسی دن آسمانی خواب کی ہم نے ہری تعبیر پہنی تھی ہمارے ہاتھ میں نصرت کا پرچم اور امکانات کے پھولوں کی ٹہنی تھی ہم اس کی خواب گوں جھنکار سے آگے نکل آئے کئی نسلوں نے جو زنجیر پہنی تھی سنہرے لفظ دیواروں پہ کندہ ہوتے جاتے تھے اجالوں کی طرف چُپکے سے وہ ہم کو بلاتے تھے سبھی تسلیم کرتے ہیں وہی بنتا ہے سچائی کو جب تجسیم کرتے ہیں ہم اپنے رہنما کی اس طرح تعظیم کرتے ہیں کہ اس کے خواب کو تقسیم…

Read More

گم شدہ اذان کے انتظار میں نظم… اسحاق وردگ

گم شدہ اذان کے انتظار میں نظم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شہر کی قربت میں آباد گائوں (جس کا فطرت سے ازل کا رشتہ ابھی ٹوٹا نہیں) سے آتی ہوئی ضعیف بابا جی کی آواز میں صبح کی اذان کی پہلی گونج شہر کی فضائوں میں جلوہ افروز ہوئی تو زمین کے سینے پر وقت نے کروٹ بدلی باباجی نے جسمانی ضعف کے باوجود اپنی روح سے کشیدکیے گئے طلسم سے سانس کا زیر وبم قائم رکھا اور آنسوئوں کی سوغات میں دل سے لب تک اپنی آواز کو با وضو کیا (تاکہ…

Read More

جاں آشوب ۔۔۔ خالد علیم

جاں آشوب ۔۔۔۔۔۔۔ کیا نکلا سنگِ چقماق کے دَور سے یہ نادان پتھر بن کر رہ گیا پورا، مٹی کا انسان جذبے پتھر، سوچیں پتھر، آنکھیں بھی پتھر تن بھی پتھر، من بھی پتھر، پتھر ہے وجدان اپنے پتھر سینے میں ہے پتھر کی دھڑکن اپنے پتھر ہونٹوں پر ہے پتھر کی مسکان آج بھی ہم پتھر کی پوجا پاٹ میں بیٹھے ہیں اپنے ہاتھ سے آپ تراش کے پتھر کا بھگوان ۔۔۔۔ ہم نے شہر بنائے، ہم نے گھر آباد کیے ہم نے انسانوں کو دی تہذیبوں کی پہچان…

Read More

وہ لڑکی ۔۔۔۔۔ فہمیدہ ریاض

وہ لڑکی ۔۔۔۔۔۔۔ جن پر میرا دل دھڑکا تھا، وہ سب باتیں دہراتے ہو وہ جانے کیسی لڑکی ہے تم اب جس کے گھر جاتے ہو مجھ سے کہتے تھے، بن کاجل اچھی لگتی ہیں مری آنکھیں تم اب جس کے گھر جاتے ہو، کیسی ہوں گی اُس کی آنکھیں تنہائی میں چپکے چپکے نازک سپنے بنتی ہو گی تم اب جس کے گھر جاتے ہو، کیا وہ مجھ سے اچھی ہو گی؟ مجھ کو تم سے کیا دلچسپی، میں اک اک کو سمجھاتی ہوں یاد بہت آتے ہو جب…

Read More

سبب ۔۔۔۔۔۔ فہمیدہ ریاض

سبب ۔۔۔۔ آ گئی شامِ غم             آ گئی پھر بتانے سے کیا فائدہ ہو گیا دل کا خوں             ہو گیا             سچ ہے یہ پھر فسانہ بنانے سے کیا فائدہ کھو گئے ہم سفر سب گئے اپنے گھر راہ چلتوں کو اَب راہ میں روک کر یہ کہانی سنانے سے کیا فائدہ مر گئی کوئی شے دفن کر کے اُسے چل پڑی راہ پر صرف میری تھی یہ جیسے ہو یہ نہایت اہم…

Read More

جب صرف اپنی بابت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجید امجد

جب صرف اپنی بابت ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب صرف اپنی بابت اپنے خیالوں کا اک دیا مرے من میں جلتا رہ جاتا ہے جب باقی دنیا والوں کے دلوں میں جو جو اندیشے ہیں اُن کے الاؤ مری نظروںمیں بجھ جاتے ہیں، تب تو یوں لگتا ہے جیسے کچھ دیواریں ہیں جو میرے چاروں جانب اٹھ آئی ہیں، مَیں جن میں زندہ چن دیا گیا ہوں، اور پھر دوسرے لمحے اس دیوار سے ٹیک لگا کر، اپنے آپ کو بھول کر، میں نے اپنی روح کے دریاؤں کو جب بھی سامنے…

Read More