ارشد معراج ۔۔۔ وہ کوئی اور تھا

وہ کوئی اور تھا ———— روشنی میرے حصے کی تھی اپنی رفتار کو تیز کر نہ سکی میں بھٹکتا رہا اِس طرف اُس طرف میں کہ صحراؤں میں دھول اُڑاتے ہوۓ رتھ پہ بیٹھا ہوا اک شکستہ بدن کون پہچانتا میرے کھیسے میں رکھے ہوۓ اُس کی قربت کے ٹکڑے بکھرتے رہے میں خزاں کی گھنی وادیوں میں کنویں کی طلب کا سہارا لیے دم بدم پا برہنہ رہا بوجھ بھیجے میں تھا پر یہ کاندھے مرے سوتری کی طرح روز کھنچتے رہے ان پہ رکھا ہوا میرا سر اِس…

Read More

بد گمانی کے اس طرف ۔۔۔۔۔۔۔۔ ارشد معراج

بد گمانی کے اس طرف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی اے کاش ایسا ہو کہ باہم مشورے سے ہم جدائی کے سفر پر چل پڑ یں تو پھر کہانی ختم ہو جاۓ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ یہ عمر رواں اپنے بہاؤ کی مخالف سمت چل دے اور گلابی کا سنی یا سرمئی شامیں پلٹ آئیں سفر بے سمت ہوں تو پھر مسافر کو پنہ گاہیں نہیں ملتیں ( کہ خواب اُگتے نہیں ہیں آنکھ کی اس تھور مٹی میں ) کبھی ایسا نہیں ہوتا یقیں سے وصل کا دعوی ہوا کے تن…

Read More