صفدر صدیق رضی ۔۔۔ نظم

نظم ۔۔۔۔۔ میں نظم کی انگلی پکڑ کر جب چلا تو راستے میں مجھ کو میری کمسنی کے دن اچانک مل گئے معصومیت کے رنگ میں لتھڑے ہوئے مہکے ہوئے وہ دسترس کو آزماتی تتلیوں کے پیار میں بہکے ہوئے پھر نظم کچھ آگے بڑھی میں بھی ڈرا آگے بڑھا میری جوانی کے شب و روز آ گئے سب معصیت کی آگ سے لپٹے ہوئے بے رہروی کی لو بڑھاتے گل رخوں کے عشق میں بہکے ہوئے پھر نظم کے اصرار پر میں رُک گیا آگے نہ کوئی رنگ تھا…

Read More

اقتدار جاوید … کیڑی کی ماں

کیڑی کی ماں ۔۔۔۔۔۔۔۔ چھٹی کی گھنٹی بجی لڑکے اسکول سے شہد سے میٹھے اپنے گھروں کی طرف ایسے مڑتے نظر آئے تھے شہد کی مکھی جیسے پلٹتی ہے چھتے کی جانب مسرت کا سیلاب گلیوں میں، کونوں میں، رونق بھرے دونوں بازاروں میں بہہ رہا تھا شریروں کا مجمع تھا یا نرم گڈوں کی ڈوریں کٹی تھیں تھا ’’بو کاٹا‘‘ کا شور گڈے دکانوں کے چھجوں، درختوں کے ڈالوں، منڈیروں کے کونوں پہ ہنستے ہوئے گر رہے تھے زمانے کا میدان ڈوبا ہوا تھا کئی رنگوں میں! نانبائی کے…

Read More

اقتدار جاوید ۔۔۔ دبلی پتلی

دبلی پتلی ۔۔۔۔۔۔۔ شگن بھری خواب سے جڑی ہے زمانہ رفتار سے بندھا ہے (زمانے کو آپ زید کہہ لیں کہ بکر جانیں) شگن بھری کا وہ خواب، وہ آفتاب روشن ہے جو افق کے محیط کو روندتا نکلتا ہے شب کے اسفنج سے سیاہی نچوڑتا ہے وہ نیند اور نیند کے اندھیروں کی کوکھ کو توڑتا ہے وہ وقت کی یخ  آلود  جھیل کو چھیدتا ہے تو ثانیے ابلتے ہیں جیسے…جیسے… شگن بھری کی بخار والی سفید آنکھوں سے جیسے موتی ٹپک رہے ہوں زمانہ رفتار سے بندھا ہے…

Read More

ممتاز اطہر ۔۔۔ چم چم کرتی خواہش

Read More

احمد خیال ۔۔۔ دانیال طریر (مرحوم) کے لیے

Read More

پریم کتھا کا ایک بند ۔۔۔ (امارو ترجمہ: میرا جی)

Read More

حسن عسکری کاظمی ۔۔۔ تحلیلِ نفسی

Read More

بیدل حیدری ۔۔۔ خزاں

خزاں ۔۔۔۔ گرد اُڑاتی ہوئی خزائوں کے سر پہ وحشت کا بھوت طاری ہے سوکھے پتوں کا رقص جاری ہے فاختائیں اداس بیٹھی ہیں جو بھی شاخِ چمن ہے، ننگی ہے سارے گلشن میں خانہ جنگی ہے چہرہ اُترا ہوا ہے لمحوں کا چل رہی ہے ہوائے یرقانی رقص کرتی ہے خانہ ویرانی کہیں سبزہ نظر نہیں آتا یعنی کھا کھا کے زیست کے غم کو پیلیا ہو گیا ہے موسم کو ساتھیو!وقت کی رگ و پَے میں اپنے جسموں کا خونِ تازہ بھرو اس خزاں کا کوئی علاج کرو…

Read More

ارشد معراج ۔۔۔ وہ کوئی اور تھا

وہ کوئی اور تھا ———— روشنی میرے حصے کی تھی اپنی رفتار کو تیز کر نہ سکی میں بھٹکتا رہا اِس طرف اُس طرف میں کہ صحراؤں میں دھول اُڑاتے ہوۓ رتھ پہ بیٹھا ہوا اک شکستہ بدن کون پہچانتا میرے کھیسے میں رکھے ہوۓ اُس کی قربت کے ٹکڑے بکھرتے رہے میں خزاں کی گھنی وادیوں میں کنویں کی طلب کا سہارا لیے دم بدم پا برہنہ رہا بوجھ بھیجے میں تھا پر یہ کاندھے مرے سوتری کی طرح روز کھنچتے رہے ان پہ رکھا ہوا میرا سر اِس…

Read More

عربوں کے نام ۔۔۔ صلاح الدین پرویز

عربوں کے نام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مُڑ کر دیکھتے ہیں دودھ کی ساری خراشیں ٹوٹ جاتی ہیں سمندر لوگ تھے پتوں سے اپنا گھر بناتے پھول چُنتے ٹہنیوں سے ٹہنیوں کو جوڑ دیتے سمندر لوگ تھے جب شہد پیتے ریت پر آنکھیں بناتے آسماں سُنتے نمک پلکوں سے چننے میں وہ سب مصروف ہو جاتے اکیلا ۔۔۔ لا سمندر جھوٹ ہیں اور آسماں کا رنگ میلا ہے سفیدی: لال مٹی: لال ہم سب ڈوب جائیں آسماں بڑھتا ہے پانی ریت پر آنکھیں بنا کر آسماں میں ڈوب جاتا ہے تو یہ…

Read More