ممتاز اطہر … یہی نہیں کہ فقط  آئنے  بدلنے لگا 

یہی نہیں کہ فقط  آئنے  بدلنے لگا  وہ خال و خد بھی  نئے  سے نئے بدلنے لگا  ملا وہ مجھ سے کسی شام کا کنارہ  لٸے   اور اِس کے بعد تو جیسے سَمے بدلنے لگا   اُسے لگا کہ اُسے لوگ دیکھتے ہیں بہت  وہ خوش جمال کٸی زاویے بدلنے لگا   میں سوچتا تھا ، اُسے ہم سفر بنا کے چلوں  وہ بات کرتے ہُوٸے راستے بدلنے لگا  ہوا ، دریچوں کو جس پَل حصار کرنے لگی  تو میں ستاروں سے اپنےدیے  بدلنے لگا   اُسے خبر تھی کہ باہر سے میں…

Read More

ممتاز اطہر ۔۔۔ اورہی طرح کے میں سلسلے بناتا ہوں

اورہی طرح کے میں سلسلے بناتا   ہوں دشت چھان لیتا ہوں ، آئنے بناتا   ہوں   یہ مری روایت ہے ، جبر کی فصیلوں کو ریزہ ریزہ کرتا   ہوں ، راستے بناتا  ہوں   خواب جب بھی آتے ہیں اک بھنور کی مٹھی میں میں بھی اپنے سینے میں وسوسے بناتا ہوں   مجھ پہ کھلنے لگتے ہیں ، خوشبوؤں کے دروازے جب کبھی محبت کے زمزمے بناتا    ہوں   ہم جو کام کرتے ہیں ، کتنے مختلف سے ہیں تم ہوا بناتے ہو ، میں دیے بناتا ہوں…

Read More

ممتاز اطہر ۔۔۔ محوِ حیرت ہیں کہ تعمیر کی حسرت کیا ہے

محوِ حیرت ہیں کہ تعمیر کی حسرت کیا ہے آسماں ہے تو کسی چھت کی ضرورت کیا ہے ہم نے رکھے ہیں سرِ شام دیے مٹی میں ہم سے پوچھے کوئی ، مٹی کی محبت کیا ہے آئنہ ہونے کی خواہش بھی تو خود ہی کی تھی اب اگر ٹوٹ کے بکھرے ہیں تو حیرت کیا ہے شاخ سے ٹوٹتے پتے ہی بتا سکتے ہیں ہجر کیا چیز ہے اور اصل میں ہجرت کیا ہے ان کے ہم راہ کسی روز نکل چلتے ہیں دیکھتے ہیں کہ پرندوں کی مسافت…

Read More

ممتاز اطہر ۔۔۔ محوِ حیرت ہیں کہ تعمیر کی حسرت کیا ہے

محوِ حیرت ہیں کہ تعمیر کی حسرت کیا ہے آسماں ہے تو کسی چھت کی ضرورت کیا ہے ہم نے رکھے ہیں سرِ شام دیے مٹی میں ہم سے پوچھے کوئی ، مٹی کی محبت کیا ہے آئنہ ہونے کی خواہش بھی تو خود ہی کی تھی اب اگر ٹوٹ کے بکھرے ہیں تو حیرت کیا ہے شاخ سے ٹوٹتے پتے ہی بتا سکتے ہیں ہجر کیا چیز ہے اور اصل میں ہجرت کیا ہے ان کے ہم راہ کسی روز نکل چلتے ہیں دیکھتے ہیں کہ پرندوں کی مسافت…

Read More

ممتاز اطہر … سفر کی دھوپ میں آگے ، سراب سا کچھ ہے

سفر کی دھوپ میں آگے ، سراب سا کچھ ہے چھلک پڑا ہے جو آنکھوں سے ، خواب سا کچھ ہے اسی کو علم ہے اس رات کی طوالت کا وہ جس کے سینے میں اک آفتاب سا کچھ ہے یہ جس مقام پہ لائی ہیں گردشیں ہم کو یہاں قیام تو شاید عذاب سا کچھ ہے میں خود کو ٹھیک سے ، اک بار پھر بناٶں گا میں جانتا ہوں کہ مجھ میں خراب سا کچھ ہے بنا رہا ہے تصاویر سی وہ باتوں کی سو گفتگو میں وہی…

Read More

ممتاز اطہر

جھیل میں عکسِ شام آ پڑا ہے یہ سخن کس کے نام آ پڑا ہے

Read More

ممتاز اطہر ۔۔۔ چم چم کرتی خواہش

Read More

جہاں بھی ہم چلے جائیں ۔۔۔۔۔۔۔ ممتاز اطہر

جہاں بھی ہم چلے جائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں بھی ہم چلے جائیں کوئی دجلہ ،کوئی راوی وریدوں میں ہماری سانس لیتا ہے چراغوں سے بھرے بجرے ہمارے ساتھ بہتے ہیں کناروں پر بچھے ابرق میں تاروں کا پڑائو اور لہو میں خواہشوں کا اک الائو جاگتا ہے نئی دنیائوں کا کوئی بہائو جاگتا ہے جہاں بھی ہم چلے جائیں کوئی جنگل بدن میں لہلہاتا ہے کوئی خوشبو نفس میں بھرنے لگتی ہے ہَوا سرگوشیوں میں ناشناسا نام لیتی اور کسی بیتے زمانے کی کتھا تحریر کرتی ہے پرندے اک پرانے شہر…

Read More

خدا کے لیے ایک نظم ۔۔۔۔۔۔۔ ممتاز اطہر

خدا کے لیے ایک نظم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دریچوں میں بجھتے چراغوں کے چہرے منڈیروں سے لپٹی ہوئی زرد بیلوں پہ شبنم کے قطرے تمہارے بہت دیر سے منتظر ہیں کبھی شاخچوں پر شگوفوں کی صور ت میں تم اپنے ہونے کا اظہار کرتے تو پتوں میں پوشیدہ خوشبو کے پَر پھڑ پھڑاتے یہاں اِن فضائوں سے مانوس اُجلے پرندے تمہارے بہت دیر سے منتظر ہیں کبھی چاند کے رتھ پر بیٹھے ہوئے تم اِدھر سے گزرتے ، ہَوا اور شجر تم کو بانہوں میں لیتے ٭’’مہانوں‘‘ کی بستی میں بسرام کرتے…

Read More

الائو کے گرد بیٹھی رات ۔۔۔۔۔۔ ممتاز اطہر

الائو کے گرد بیٹھی رات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عجب طلسمِ ذات و کائنات ہے خمار سا بھرا ہُوا ہے چار سُو پیالہ سا دھرا ہُوا ہے آسماں کے رُوبرُو اور اُس کے لب سے چھو رہے ہیں ماہتاب چھلک رہی ہیں شاخچوں سے کونپلیں، نئی نئی اتر رہے ہیں چومنے کو آفتاب دشائیں ہیں اور اُن میں کہکشائیں ہیں اور اک طرف کو ریگِ سُرخ ہے بچھی ہوئی سمے کے زرد پاؤں سے نشاں ہیں کچھ بنے ہوئے اور اُن سے دورخاک پر مکان ہیں وہ جن میں ایک عمر سے کوئی…

Read More