خالی بالٹی ۔۔۔ حامد یزدانی

خالی بالٹی ۔۔۔۔۔۔۔ اب مجھے اُنہیں ڈھونڈنا ہے۔ سرکاری دورے کا آج آخری دن ہے۔ پچھلے چار دن میں مختلف رسمی ملاقاتوں اور باقاعدہ اجلاسوں میں کچھ یوں الجھا رہا کہ نہ تو قدم ڈھاکہ کی چند سرکاری عمارتوں کی سفید راہداریوں میں بھٹکتے تذبذب سے باہر نکل پائے اور نہ ہی ذہن اکڑی ہوئی کرسیوں کو کھینچ کرمستطیل میز کے قریب کرنے اور پھر گھسیٹ کر دُور کرنے کی دھیمی دھیمی گونج سے آزاد ہو پایا۔ ایک نو قائم شدہ ملک کے دارالحکومت میں مصروفیات کی ترتیب یا بے…

Read More

کو ّے ۔۔۔ حامد یزدانی

کوّے ۔۔۔۔۔ طویل اور مہیب راہداری عبور کر کے میں ایک دالان میں جا نکلتا ہوں جس کے گرد اونچی فصیلیں ایستادہ ہیں۔ ایک عجیب دھند چھائی ہوئی ہے۔ نہ صاف اجالا ہے نہ صاف اندھیرا ۔سامنے ایک سیاہ محرابی بےکواڑدروازہ نُما ہے۔ اچانک عقب سے کَھٹ کی آواز آتی ہے۔ میں مُڑ کر دیکھتا ہوں۔ میرے آنے کا راستہ بھی دیوار ہو چکا ہے۔ بھیانک اندھیرا چھانے لگتا ہے اور یکا یک ہر سمت سے بےسمت چیخیں بلندہونےلگتی ہیں۔ادھرسیاہ محرابی دروازہ نُما سے ایک ہیولہ برآمد ہوتا ہے؛ ماحول…

Read More

موت کے تعاقب میں ۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹرغافرشہزاد

موت کے تعاقب میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس وقت دفتر میں تھا کہ جب اسے بیوی نے ٹیلیفون پر اطلاع دی کہ اس کی دس ماہ کی بیٹی کی طبیعت خراب ہے، اور اسے رک رک کر سانس آ رہا ہے۔ یہ خبر اس کے لیے خلاف توقع نہ تھی۔ وہ صبح سے بار بار اپنے موبائل فون کی سکرین کی جانب دیکھتا تھا کہ جب وہ روشن ہو جاتی۔ دو تین ایس ایم ایس اس کے دوستوں کی جانب سے تھے جنھوں نے اسے دو دن بعد آنے والی عید…

Read More

قاضی حبیب الرحمن ۔۔۔۔۔۔ تلاشِ ذات میں اپنا نشاں نہیں ملتا

تلاشِ ذات میں اپنا نشاں نہیں ملتا یقین کیسا؟ یہاں تو گماں نہیں ملتا سفر سے لوٹ کے آنا بھی اک قیامت ہے خود اپنے شہر میں اپنا مکاں نہیں ملتا بہت دنوں سے بساطِ خیال ویراں ہے بہت دنوں سے وہ آشوبِ جاں نہیں ملتا جہاں قیام ہے اُس کا ، عجیب شخص ہے وہ یہ واقعہ ہے کہ اکثر وہاں نہیں ملتا گواہ سارے ثقہ ہیں ، مگر تماشا ہے کسی کے ساتھ کسی کا بیاں نہیں ملتا شعورِ جاں ، عوضِ جاں ، بسا غنیمت ہے کہ…

Read More

الائو کے گرد بیٹھی رات ۔۔۔۔۔۔ ممتاز اطہر

الائو کے گرد بیٹھی رات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عجب طلسمِ ذات و کائنات ہے خمار سا بھرا ہُوا ہے چار سُو پیالہ سا دھرا ہُوا ہے آسماں کے رُوبرُو اور اُس کے لب سے چھو رہے ہیں ماہتاب چھلک رہی ہیں شاخچوں سے کونپلیں، نئی نئی اتر رہے ہیں چومنے کو آفتاب دشائیں ہیں اور اُن میں کہکشائیں ہیں اور اک طرف کو ریگِ سُرخ ہے بچھی ہوئی سمے کے زرد پاؤں سے نشاں ہیں کچھ بنے ہوئے اور اُن سے دورخاک پر مکان ہیں وہ جن میں ایک عمر سے کوئی…

Read More

یہ دائرے کا سفر نہیں ہے  ۔۔۔۔۔ شہزاد احمد

یہ دائرے کا سفر نہیں ہے ! …………………………….. یہ دائرے کا سفر نہیں ہے مگر میں محسوس کر رہا ہوں تمام چیزیں وہیں پڑی ہیں، جہاں پڑی تھیں یہ چارسُو پھیلتا سمندر کہ جس کے مرکز میں مَیں کھڑا ہوں کسی اپاہج فقیر کی طرح، ایک گوشے میں سَرنِگوں ہے بہت سکوں ہے! نہ کوئی جنبش، نہ کوئی لرزش، نہ کوئی خواہش یہ بے حسی حشر تک چلے گی یہ رات شاید نہیں ڈھلے گی فلک ستاروں کو ساتھ لے کر اگر یونہی گھومتا رہے گا تو کیسے اندازہ ہو…

Read More