نعتیہ ۔۔۔ خالد احمد

نعتیہ چہرہ تمام رنگ تھا، پیکر کِرن تمام کجلا کے رہ گئے مَہ و پروین تن تمام اک سطر میں ہوئے ورَقِ جان و تن تمام لیکن ہُوا نہ تذکرۂ پیرہن تمام اک سرسری نگاہ میں گل رنگ ہو گئے پست و بلند، دشت و جبل، ژاژ و بن تمام کس رُخ کروں قصیدۂ شاہِ زَمن تمام تشیب ہی میں ہو گئی تابِ سخن تمام اے کاروانِ خاک و خل و خار و خس! سنبھل محمل کے ساتھ ساتھ ہیں گُل پیرہن تمام خیمہ بہ دوش، شانہ بہ کف، خانماں…

Read More

ایک تصویر کی محویت ۔۔۔ نصیر احمد ناصر

ایک تصویر کی محویت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنا گہرا استغراق جیسے جنگل ہو خاموش جیسے پانی ہو مدہوش جیسے باہم ہجر وصال جیسے خواب میں کوئی خیال …………………..

Read More

اچھی گزر رہی ہے دلِ خود کفیل سے ۔۔۔ احمد جاوید

اچھی گزر رہی ہے دلِ خود کفیل سے لنگر سے روٹی لیتے ہیں، پانی سبیل سے دنیا کا کوئی داغ مرے دل کو کیا لگے مانگا نہ اک درم بھی کبھی اس بخیل سے کیا بوریا نشیں کو ہوس تاج و تخت کی کیا خاک آشنا کو غرض اسپ و فیل سے دل کی طرف سے ہم کبھی غافل نہیں رہے کرتے ہیں پاسبانئ شہر اس فصیل سے گہوارہ سفر میں کھلی ہے ہماری آنکھ تعمیر اپنے گھر کی ہوئی سنگِ میل سے اک شخص بادشاہ تو اک شخص ہے…

Read More

یہ دائرے کا سفر نہیں ہے  ۔۔۔۔۔ شہزاد احمد

یہ دائرے کا سفر نہیں ہے ! …………………………….. یہ دائرے کا سفر نہیں ہے مگر میں محسوس کر رہا ہوں تمام چیزیں وہیں پڑی ہیں، جہاں پڑی تھیں یہ چارسُو پھیلتا سمندر کہ جس کے مرکز میں مَیں کھڑا ہوں کسی اپاہج فقیر کی طرح، ایک گوشے میں سَرنِگوں ہے بہت سکوں ہے! نہ کوئی جنبش، نہ کوئی لرزش، نہ کوئی خواہش یہ بے حسی حشر تک چلے گی یہ رات شاید نہیں ڈھلے گی فلک ستاروں کو ساتھ لے کر اگر یونہی گھومتا رہے گا تو کیسے اندازہ ہو…

Read More

رحمان باباؒ کے لیے ۔۔۔ خالد احمد

رحمان باباؒ کے لیے رہی گُل گوں، جمالِ جسم کی ضَو رات بھر کھلی آنکھوں سے دیکھی پھوٹتی پَو، رات بھر کئی شمعیں سرِ طاقِ شبستاں جل بجھیں پڑی مدھم نہ میرے پیار کی لَو، رات بھر O عروسِ مے پسِ پیراہنِ مینا رہی مگر وجہِ نشاطِ دیدۂ بینا رہی برہنہ چشم ناظر تھا، فرازِ طور پر گرفتہ خواب، خاکِ وادیٔ سینا رہی O شرارِ عشقِ رُخ کو حُسن کا لپکا دیا مرے مولا نے میرا غم مجھے لوٹا دیا صراحی سے اُنڈیلیں برکتیں کس آن کی پیالہ بھر دیا…

Read More

شہزاد احمد ۔۔۔ منتظر دشتِ دل و جاں ہے کہ تو آئے

منتظر دشتِ دل و جاں ہے کہ تو آئے سارے منظر ہی بدل جائیں اگر تو آئے بے ہنر ہاتھ چمکنے لگا سورج کی طرح آج ہم کس سے ملے، آج کسے چھو آئے ہم تجھے دیکھتے ہی نقش بہ دیوار ہوئے اب وہی تجھ سے ملے گا جسے جادو آئے اپنے ہی عکس کو پانی میں کہاں تک دیکھوں ہجر کی شام ہے، کوئی تو لبِ جو آئے کسی جانب نظر آتا نہیں بادل کوئی اور جب سیلِ بلا آئے تو ہر سو آئے چاہتا ہوں کہ ہو پرواز…

Read More