شہزاد احمد ۔۔۔ منتظر دشتِ دل و جاں ہے کہ تو آئے

منتظر دشتِ دل و جاں ہے کہ تو آئے
سارے منظر ہی بدل جائیں اگر تو آئے

بے ہنر ہاتھ چمکنے لگا سورج کی طرح
آج ہم کس سے ملے، آج کسے چھو آئے

ہم تجھے دیکھتے ہی نقش بہ دیوار ہوئے

اب وہی تجھ سے ملے گا جسے جادو آئے

اپنے ہی عکس کو پانی میں کہاں تک دیکھوں

ہجر کی شام ہے، کوئی تو لبِ جو آئے

کسی جانب نظر آتا نہیں بادل کوئی

اور جب سیلِ بلا آئے تو ہر سو آئے

چاہتا ہوں کہ ہو پرواز ستاروں سے بلند

اور مرے حصے میں ٹوٹے ہوئے بازو آئے

درد میں ڈوبی ہوئی، راکھ میں نہلائی ہوئی

رات یوں آئی ہے جیسے کوئی سادھو آئے

راستہ روک سکی ہیں نہ فصیلیں نہ حصار

پھول جنگل میں کھلے شہر میں خوشبو آئے

روگ بھی تو نے لگایا ہے انوکھا شہزادؔ

اب کہاں سے ترے اس درد کا دارو آئے

Related posts

Leave a Comment