یہ دائرے کا سفر نہیں ہے  ۔۔۔۔۔ شہزاد احمد

یہ دائرے کا سفر نہیں ہے !
……………………………..
یہ دائرے کا سفر نہیں ہے
مگر میں محسوس کر رہا ہوں
تمام چیزیں وہیں پڑی ہیں، جہاں پڑی تھیں
یہ چارسُو پھیلتا سمندر
کہ جس کے مرکز میں مَیں کھڑا ہوں
کسی اپاہج فقیر کی طرح، ایک گوشے میں
سَرنِگوں ہے
بہت سکوں ہے!

نہ کوئی جنبش، نہ کوئی لرزش، نہ کوئی خواہش
یہ بے حسی حشر تک چلے گی
یہ رات شاید نہیں ڈھلے گی

فلک ستاروں کو ساتھ لے کر
اگر یونہی گھومتا رہے گا
تو کیسے اندازہ ہو سکے گا؟
کہ ہم کہاں ہیں
نہ کوئی مشرق، نہ کوئی مغرب
تمام سمتیں بھنور کا چولا پہن چُکی ہیں
جہاں سے دیکھو، تمام منظر ہیں ایک جیسے
عجیب یکسانیت کا عالم ہے
تھک گیا ہوں!

مگر ابھی سانس لے رہا ہوں
میں جی رہا ہوں کہ مر رہا ہوں
بکھر رہا ہوں، سمٹ رہا ہوں
سمٹ رہا ہوں، بکھر رہا ہوں
مری اکائی اسی طرح ہے
مگر میں تبدیل ہو رہا ہوں

اگرچہ قائم ہے جسم میرا
مگر میں تحلیل ہو رہا ہوں
اب اس عمل سے مفر نہیں ہے
یہ دائرے کا سفر نہیں ہے!

Related posts

Leave a Comment