رحمان باباؒ کے لیے ۔۔۔ خالد احمد

رحمان باباؒ کے لیے
رہی گُل گوں، جمالِ جسم کی ضَو رات بھر
کھلی آنکھوں سے دیکھی پھوٹتی پَو، رات بھر
کئی شمعیں سرِ طاقِ شبستاں جل بجھیں
پڑی مدھم نہ میرے پیار کی لَو، رات بھر
O
عروسِ مے پسِ پیراہنِ مینا رہی
مگر وجہِ نشاطِ دیدۂ بینا رہی
برہنہ چشم ناظر تھا، فرازِ طور پر
گرفتہ خواب، خاکِ وادیٔ سینا رہی
O
شرارِ عشقِ رُخ کو حُسن کا لپکا دیا
مرے مولا نے میرا غم مجھے لوٹا دیا
صراحی سے اُنڈیلیں برکتیں کس آن کی
پیالہ بھر دیا لیکن نشہ چھلکا دیا
O
مہِ غم آج پھر اظہار کے ہالے میں ہے
یہ زندانی ابھی اُلجھا عجب جالے میں ہے
نشاطِ وصل کیا اور انبساطِ ہجر کیا
یہ مے خوں میں نہیں شامل، اگر پیالے میں ہے
O
قیامت تھا، قیامت قامتوں کا سامنا
چراغوں کی جگہ ہاتھوں میں سورج تھامنا
یہ غم غارت گروں کی شان کے شایاں نہ تھے
مرے دل میں بھی ہوتی کاش کوئی کامنا
O
نمودِ فن سرِ دیوانِ فن ہونے کو ہے
سخن آرا مرا سلطانِ فن ہونے کو ہے
صفِ دل ماندگاں مصروفِ آرائش رہے
جمالِ غم سروسامانِ فن ہونے کو ہے
O
بہلنا ہو، تو اے نادان! تینوں ایک ہیں
مہ و مہر و رُخِ تابان، تینوں ایک ہیں
شبِ تربت، شبِ فرقت، شبِ ظلمت لیے
لحد، گھر، شہرِ ناپُرسان، تینوں ایک ہیں
وہ لب لعلیں، وہ دل خارا، وہ رُخ مرجان ہے
الگ کیونکر لگیں، اے جان! تینوں ایک ہیں
تہی دست و تہی داماں فقیروں کے لیے
یہ لعل و گوہر و مرجان، تینوں ایک ہیں
سپاہی کیا؟ سپہ سالار کیا؟ سلطان کیا؟
تہِ تیغِ اجل سامان، تینوں ایک ہیں
پڑے کس پر نظر، کشکول ٹھہرے کس کا سَر
بریدہ تن سرِ میدان، تینوں ایک ہیں
تہی آواز کانوں، بے زبانوں کے لیے
بیاباں، شہر، نخلستان، تینوں ایک ہیں
وہ باورچی ہو، ساقی ہو، مہِ یعقوب ہو
رہائی تک پسِ زندان، تینوں ایک ہیں
یہ تارا ہے کہ جگنو ہے کہ آنسو، کیا کہیں
کہ جھلمل میں، سرِ مژگان، تینوں ایک ہیں
صفِ اعدا، صفِ یاراں، صفِ نوحہ گراں
نگاہِ نم! نہ ہو حیران، تینوں ایک ہیں
شرابِ سرخ، مٹی کا کٹورا، خونِ دل
بہم ہو جائیں، تو اے جان! تینوں ایک ہیں
یہ دکھ، یہ شعر، یہ نغمہ، گُلِ خوشبوئے گِل
رباب و زخمہ و رحمانؒ، تینوں ایک ہیں
جُدا دستِ گدا، دستِ سخا، دستِ دُعا
مگر پیشِ شہِؐ شاہان، تینوں ایک ہیں
O
اُسے دیکھا تو آنکھوں کو بہت اچھا لگا
وہ جب بولا تو کانوں کو بہت اچھا لگا
کشادہ رُخ، کشادہ دل، کشادہ دَر رہا
وہ تنہائی کے ماروں کو بہت اچھا لگا
O
دلِ آگاہ! کیا ناخوب ہے؟ کیا خوب ہے؟
تجھے ہر سانس کس کا امتحاں مطلوب ہے؟
گُلِ منصور کھلتے ہیں صلیبِ شاخ پر
کلیسائوں میں عیسیٰ آج بھی مصلوب ہے
O
اِک اَن دیکھے سے اندیشے میں دَم بستہ رہے
غزالانِ ختن ہر آن رَم بستہ رہے
دیارِ ہُو میں بھی، غم آشنا غم بستگاں
نمو کے نام پر، نم دیدہ، نم بستہ رہے
O
اُڑا وہ رنگ تو سب رنگ پیلے ہو گئے
تنِ رعنا کے سب ملبوس ڈھیلے ہو گئے
مرے مولا! اُٹھائوں کس طرح دستِ دُعا
کہ اب تو کہنیوں تک ہاتھ نیلے ہو گئے
O
ہوائے آتشیں، دریائے گِل کیوں کر ہوئی
تری یوسف ؑ رُخی، یعقوب دِل، کیوں کرہوئی
ترا ماہِ سخن پرتَو تھا کس اَندوہ کا
گِلِ نغمہ مرے ہونٹوں کی سِل کیوں کر ہوئی
O
جمالِ سادہ میرے نطق کا طالب رہے
مرا فن بے نیازِ کاغذ و قالب رہے
مرا رنگِ سخن معمورۂ تاثیر ہو
مرا اقبال میرے عجز پر غالب رہے
O
مرے تن میں مہکتی ہیں مری چاروں رُتیں
مرے فن میں چہکتی ہیں مری چاروں رُتیں
مری خاکِ سخن اِس زَر زَمیں کی گرد ہے
مرے بَن میں لہکتی ہیں مری چاروں رُتیں
O
حدی خوانو! ہم آہنگِ جرس کچھ اور ہے
کہ زخمہ گر، پسِ تارِ نفس کچھ اور ہے
ہوا کے کان پڑتی کیا؟ نوائے بے نوا
کہ شورِ ماتمِ خاشاک و خس کچھ اور ہے
پلٹ جا ڈھیر کر کے دولتِ اشک و ہنر
نگاہِ نکتہ رَس! وہ نکتہ رَس کچھ اور ہے
مہِ شہرِ نگاراں! روئے یارِ مہرباں!
غم آسانوں کو سامانِ ہوس کچھ اور ہے
وہ رُخ مکھڑا نہ تھا دائود ؑ کے مزمور کا
کہ میرے شہد لب کا رنگ رَس کچھ اور ہے
دَرِ بے دَر پہ دیتے کیا دُعا کی دستکیں
کہ درویشوں کے زیرِ دسترس کچھ اور ہے
لہو جلتا رہا کرب و بلا کے طاق میں
چراغِ خانۂ آفاق رَس کچھ اور ہے
قبا پر سلوٹیں ہیں اور تن پر جھرّیاں
سرِ کاغذ بھی غم اب کے برس کچھ اور ہے
O
غبارِ خاک اور افلاک کے مابین تھے
ابابیلوں کی صورت شام سے بے چین تھے
پلٹ کر دیکھنا، ڈاچی سی گردن موڑنا
کہ تیرے حسن کا گھر بار، تیرے نین تھے
O
تنِ توسن پہ برسے عمر بھر کوڑے بہت
ستم، یاروں نے رخشِ نطق پر توڑے بہت
زمیں صحرائے فن کی سینچتے کیا؟ چشم نم!
کہ اِس مٹی میں بھی تھے پھول کم ، روڑے بہت
O
خدایا! کیا ہوئے؟ کیا خوبصورت لوگ تھے
عجب شفّاف رُخ، شفّاف طینت لوگ تھے
ترے دُکھ اور سکھ تھے رنج و رزقِ رفتگاں
کہ زیرِ خاک زندہ، خاک سیرت لوگ تھے
O
سرِ آفاقِ فن کیا کیا نہ کُرلاتے رہے
ہوا کی طرح تیرے گرد چکراتے رہے
تری خوشبو میں بس پایا نہ دیوانِ ہنر
گِلِ اطرافِ گُل، گارے میں گندھواتے رہے
O
مثالِ موجِ دریا، ریت پر لکھنا سکھا
گئے دن کی کہانی، رات بھر لکھنا سکھا
بیاضِ ریگِ دریا، موجِ نم کب لے بہے
سرِ لوحِ ہوا، اے چشمِ تر! لکھنا سکھا
O
تہی دست و تہی داماں، تہی ساماں رہوں
بس اک دُھن میں مگر آوارہ و گریاں رہوں
مرے بابا! مری سوچیں مجھے رستہ نہ دیں
غریقِ موجِ دریائے غمِ جاناں رہوں
O
بہت ذی عزت و ذی شوکت و ذی شان تھا
غمِ جاں بھی، بلا کی آن کا مہمان تھا
غمِ جاناں، مری سانسوں میں دم بھرتا رہا
اِسی جگمگ سے جھلمل خانۂ ویران تھا
O
کب آساں تھا، سکونِ بے ستوں کا چھیڑنا
لرزتے ہاتھ سے ٹوٹے ہوئے پٹ بھیڑنا
مہِ ثانی مری آنکھوں میں پانی بھر گیا
مجھے سکھلا گیا اندھے کنویں تک گیڑنا
O
یہ کیسا تار کھینچا؟ خول کیسا بُن دیا؟
ہنر مندی نے دیوارِ ہنر میں چُن دیا
گرفتارِ بلا ہوں، کرمِ ریشم کی طرح
یہ کیسا ہُن دیا؟ مولا! یہ کیسا گُن دیا؟
O
سرِ کاسہ ،دعائوں کی کھنک تک یاد ہے
زرِ خالص کو شرماتی چمک تک یاد ہے
بھری آنکھوں، تہی داماں پھرا ہوں شہر میں
نوائے بے نوائی کی کسک تک یاد ہے
طلسمِ درہم و دینار سَر کیسے ہوا
مرا کارِ محبت کارگر کیسے ہوا
مثالِ موج دُنیا سر پٹک کر رہ گئی
یہ گھر تعمیر ریگِ نرم پر کیسے ہوا
O
عجب خاکی لکیروں کا نگر بنتا گیا
تنِ چوبِ سبک، دیمک کا گھر بنتا گیا
سخاوت اب خزانوں میں کمی لانے لگی
نکو کاروں کا دل ارژنگِ زَر بنتا گیا

O
گلابی آب خورے بیچ کھاتا کس طرح
میں اُن آنکھوں کے ڈورے بیچ کھاتا کس طرح
مرے کنڈال تھے، خوفِ خدا، عشقِ نبیؐ
یہ مٹی کے کٹورے بیچ کھاتا کس طرح
O
طلسمِ سوزن و شیرازۂ و پیوند ہوں
جنوں کیشوں میں شامل ہوں نہ دانش مند ہوں
مرے تلووں پہ بھی مل دے، توکّل کی حنا
زَ سر تا پا اگر تقدیر کا پابند ہوں
O
رگوں کے بام و دَر سے خون کا سر پھوڑنا
سمندر کی طرح اپنے کنارے توڑنا
بہت دشوار ہے یہ کارِ غم، اے ارضِ غم!
بدن ڈھاتے ہوئے دریائوں کا رُخ موڑنا
O
سرِ ماتم سرا، آہستہ آہستہ تڑپ
سرِ دارِ عزا، آہستہ آہستہ تڑپ
نمو کاری ذرا مدھم سُروں کا کھیل ہے
تنِ بسمل! ذرا آہستہ آہستہ تڑپ
O
مُنڈیریں اُڑ گئیں، چڑیوں کا چرچا رہ گیا
فقط گرد و غبارِ کارِ دُنیا رہ گیا
ہوا کے ساتھ مٹی کے گھروندے چل دیے
جنازے اُٹھ گئے، کہرام برپا رہ گیا
O
دُکھوں کے پائوں میں حلقہ دُعا کا ڈالنا
گِلِ ماتم نمو میں، نم ثنا کا ڈالنا
گراں جانو! یہ دُکھ تو بیج ہیں دانائی کے
یہ رُکھ بونا مگر پانی رضا کا ڈالنا
O
گلابِ صبح پر عطرِ ضیا کیا ڈالنا
سوا نیزے کے چہرے پر نگہ کیا ڈالنا
کھُلے تو بھربھری مٹی بھری مُٹھی کھُلے
تنِ گلگوں پہ زنگاری قبا کیا ڈالنا
O
سرِ بازارِ جاں کیا کیا نہ ہنگامے رہے
مگر کچھ اہلِ دل، ہر آن دل تھامے رہے
کروں، اے جاں! شہِ شہرِ َانا کی نذر کیا
مرے فتراک میں لکھے ہوئے نامے رہے
O
دُعا کے تیر پر، پارہ چڑھا تاثیر کا
مرا کشکول، ترکش بن گیا تقدیر کا
خبر کیا؟ کس کا نالہ تھا؟ یہ کس کی آہ تھی؟
ہدف، میرِ صفِ اعدا ہوا کس تیر کا
O
چراغِ شام، طاقِ صبح کا تارا ہُوا
ستارہ، وقت کے ہاتھوں میں سیّارہ ہُوا
چراغِ کارواں، بے کارواں جل بجھ گئے
دُعائوں کا دُھواں، اُڑتا ہُوا پارا ہُوا
O
عجب مہکار کے ہالے میں ہوں مثلِ گلاب
عجب تر انگلیاں ہیں زخمۂ تارِ رباب
مزامیرِ غمِ جاں ہیں، ابھی نوحہ کناں
یہ چُپ ہو لیں تو چھیڑوں نغمۂ حسن و شباب
O
یہ کس کے رُوبرو آئینہ پانی ہو گیا
رُخِ شفّاف یکسر آسمانی ہو گیا
عجب گہرائی میں روشن عجب اُونچائی تھی
مہِ برجِ انا، مہتابِ ثانی ہو گیا
O
ارادت کا تقاضا ہے کہ لب بستہ رہوں
طلب بستہ رہوں لیکن اَدب بستہ رہوں
جمالِ کسب کی جھلمل مجھے گھیرے رہے
مثالِ کرمکِ شب تاب، شب بستہ رہوں
O
درِ خیر الوراؐ پر التجا بستہ رہے
پھر اُن کا مبتلا کیوں اِبتلا بستہ رہے
مجھے اصلِ اصولِ فن رہے عشقِ نبیؐ
مرے باباؒ! مرا فن اِرتقا بستہ رہے
O
سبد یہ تا اَبد سبز و تر و تازہ رہے
کھُلا مجھ پر تری شفقت کا دَروازہ رہے
ترا رستہ، مرا رستہ رہے اے پاک باز!
تری آواز کا پرتَو یہ آوازہ رہے
O
یہ تن، آکاس بیلوں کے لیے پھلتا رہے
چراغِ شام بن کر صبح تک جلتا رہے
مرے باباؒ! ترا دَم ہر قدم ہم راہ ہو
ترا بیٹا، تہِ آفاقِ غم، چلتا رہے
O
سب اہلِ ممکنت ہیں، صاحبِ تمکین ہیں
مرے باباؒ! مرے احباب کیوں غمگین ہیں
وہ چشمِ سرمگیں نمناک ٹھہری کس طرح
مرے مولا! یہ آنسو کس قدر نمکین ہیں
O
ترا ہر نقشِ فن، عرشِ سخن کا چاند ہے
مرا سورج، ترے تاروں کے آگے ماند ہے
رگِ الفاظ میں چلتا لہو، جمتا نہیں
ترا اِک اِک سخن، تیرے لہو کی ناند ہے
O
تنِ خاکی پہ کیا مٹی کے ذرّے تاڑنا
سر انگشتِ حنا سے خاکِ تن کیا جھاڑنا
شکستہ جاں، شکستہ پا، شکستہ پیرہن
لباسِ تار پر کیا بیل بوٹے کاڑھنا
O
ترا مہ فام مٹی میں ملایا جائے گا
یہ گل اندام مٹی میں ملایا جائے گا
اسی مٹی سے پھوٹیں گی تری نم نکہتیں
کہ ِاس کا نام مٹی میں ملایا جائے گا
O
سزاوارانِ بارانِ ندامت کیا کریں؟
طلبگارانِ خورشیدِ قیامت کیا کریں؟
لوائے فقرِ احمدؐ ہاتھ سے رکھ دیں، مگر
سحر دم، گُل چراغِ استقامت کیا کریں
O
دُکھوں کی ڈار سے بچھڑی ہوئی اک کونج ہے
یہ مجموعہ تری کُرلاہٹوں کی گونج ہے

Related posts

Leave a Comment