احمد جاوید… فرصت نہ ملی کارِ جہاں بانیِ دل سے

فرصت نہ ملی کارِ جہاں بانیِ دل سے اترے نہ کبھی تختِ سلیمانیِ دل سے کیا سرووسمن سیر کرے باغِ جہاں کے حیراں ہے جو یک غنچہ گلستانی ِ دل سے لوگو ابھی کچھ وقت ہے،چاہو تو بدل لو دربانیِ دنیا کو نگہبانی ِ دل سے ہے سنگِ تہِ آب ، ہمالہ ہو کہ جودی زخَاری و موّاجی و طغیانیِ دل سے ہاتھ آئے جو قسمت سے وہ گنجینۂ خوبی چھٹ جائیں ہم اس بے سروسامانیِ دل سے دنیا کی طرف دیکھ کے خوف آتا ہے مجھ کو معموریِ آفاق…

Read More

اچھی گزر رہی ہے دلِ خود کفیل سے ۔۔۔ احمد جاوید

اچھی گزر رہی ہے دلِ خود کفیل سے لنگر سے روٹی لیتے ہیں، پانی سبیل سے دنیا کا کوئی داغ مرے دل کو کیا لگے مانگا نہ اک درم بھی کبھی اس بخیل سے کیا بوریا نشیں کو ہوس تاج و تخت کی کیا خاک آشنا کو غرض اسپ و فیل سے دل کی طرف سے ہم کبھی غافل نہیں رہے کرتے ہیں پاسبانئ شہر اس فصیل سے گہوارہ سفر میں کھلی ہے ہماری آنکھ تعمیر اپنے گھر کی ہوئی سنگِ میل سے اک شخص بادشاہ تو اک شخص ہے…

Read More