آسماں سے ستارہ نہیں آئے گا ۔۔۔ سحرتاب رومانی

آسماں سے ستارہ نہیں آئے گا اب کوئی بھی اشارہ نہیں آئے گا ہاتھ آئے گا وہ میرے تھوڑا بہت وہ کسی طور سارا نہیں آئے گا کیوں اِدھر مستقل دھوپ ہی دھوپ ہے کیا اِدھر اَبر پارہ نہیں آئے گا ؟ آئیں گے دوست سارے ہی ملنے، مگر ایک بے اعتبارا نہیں آئے گا یہ سڑک ناک کی سیدھ میں جائے گی اس سڑک پر منارہ نہیں آئے گا میں پرستان لکھتا چلا جاؤں گا جن، پری استعارہ نہیں آئے گا ختم ہو جائے گا یہ سمندر، سحر اِس…

Read More

الائو کے گرد بیٹھی رات ۔۔۔۔۔۔ ممتاز اطہر

الائو کے گرد بیٹھی رات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عجب طلسمِ ذات و کائنات ہے خمار سا بھرا ہُوا ہے چار سُو پیالہ سا دھرا ہُوا ہے آسماں کے رُوبرُو اور اُس کے لب سے چھو رہے ہیں ماہتاب چھلک رہی ہیں شاخچوں سے کونپلیں، نئی نئی اتر رہے ہیں چومنے کو آفتاب دشائیں ہیں اور اُن میں کہکشائیں ہیں اور اک طرف کو ریگِ سُرخ ہے بچھی ہوئی سمے کے زرد پاؤں سے نشاں ہیں کچھ بنے ہوئے اور اُن سے دورخاک پر مکان ہیں وہ جن میں ایک عمر سے کوئی…

Read More