خالی بالٹی ۔۔۔ حامد یزدانی

خالی بالٹی
۔۔۔۔۔۔۔

اب مجھے اُنہیں ڈھونڈنا ہے۔
سرکاری دورے کا آج آخری دن ہے۔ پچھلے چار دن میں مختلف رسمی ملاقاتوں اور باقاعدہ اجلاسوں میں کچھ یوں الجھا رہا کہ نہ تو قدم ڈھاکہ کی چند سرکاری عمارتوں کی سفید راہداریوں میں بھٹکتے تذبذب سے باہر نکل پائے اور نہ ہی ذہن اکڑی ہوئی کرسیوں کو کھینچ کرمستطیل میز کے قریب کرنے اور پھر گھسیٹ کر دُور کرنے کی دھیمی دھیمی گونج سے آزاد ہو پایا۔
ایک نو قائم شدہ ملک کے دارالحکومت میں مصروفیات کی ترتیب یا بے ترتیبی کا اندازہ مجھے خوب ہے کہ میں نے ایک نیا ملک تخلیق ہوتے پہلے بھی دیکھاہے۔ میں نے پاکستان بنتے دیکھا ہے۔ میں تب بھی سرکاری ملازمت سے منسلک تھا۔ انگریز سرکار کو رخصت ہوتے، ہندوستان کی تقسیم ہوتے میں نے دیکھا ہی نہیں بلکہ جھیلا بھی ہے؛ اپنے اعصاب پر، اپنے جذبات پر، اپنے خوابوں پر، اپنے رشتوں پر ۔۔۔ کچھ کھوئے ہوئے پھر کبھی نہ مل سکے۔ مگر ان کے بدلے میں کتنے ہی اور پیارے مل گئے۔میں نے خود کوسمجھا لیا ہے کہ زخم مندمل ہوچکا ہے کہ بظاہر اس کا نشاں بھی تو باقی نہیں۔
ہاں،نئے ملک میں ابتدائی دن واقعی بہت کٹھن تھے۔ ایک طرف سن۴۷ء کے آزاد آسمان سے برستی نئی نویلی بارش کی تازگی کا احساس اور دوسری طرف حالات کے ان نوکیلے پتھروں کی تپش جو عزم کے تلووں کو جھلسائے دے رہے تھے۔ میں اگرچہ سرکار سے سرکار تک ہی آیا تھا لیکن صورتِ حال یکسر مختلف تھی۔ ٹھاٹھ باٹھ کا تو خیر مجھے کچھ شوق نہ تھا اور نہ ہے مگردارالحکومت کراچی میں سردار عبدالرب نشتر کی تازہ تازہ وزارتِ مواصلات کے جس دفترمیں میری تعیناتی ہوئی تھی وہاں توسِرے سے بنیادی دفتری لوازم ہی موجود نہ تھے۔
سوچیں توکتنے برس بیت گئے ہیں اُس بات کو۔ مگر دیکھیں تولگتا ہے ایک لمحہ بھی نہیں بِیتا۔دائرے کی طرح پھیلتا سکڑتا لمحہ جس میں نہ تومیرے قدم سرکاری عمارتوں کی راہداریوں میں بھٹکتے تذبذب سے باہر نکل پائے ہیں اور نہ ہی ذہن اکڑی ہوئی کرسیوں کو کھینچ کرمستطیل میز کے قریب کرنے اور پھر گھسیٹ کر دُور کرنے کی دھیمی دھیمی گونج سے آزاد ہو پایاہے۔ کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ جو خاکی فائل تب بغل میں دبائی تھی آج بھی میرے ساتھ ساتھ ہے۔ کراچی سے اسلام آباد، اسلام آباد سے ڈھاکہ تک یہ خاکی فائل میری ہم۔دم بھی ہے اور کسی حد تک میری ہم۔راز بھی۔ ایسی ہی وفادار فائلوں کاایک دبیز پلندہ پیچھے میرا سیکرٹری سنبھالے ہوئے ہے۔ جس کے پیچھے اُس کا اسسٹنٹ سیاہ ٹائپ رائٹر اٹھائے چلا آتا ہے۔
’’سر، آج کا کام تو قریب قریب ختم ہوا۔آپ ہوٹل چلیے ۔۔۔میں یہ فائل مکمل کرکے وہیں لے آؤں گا۔ یہ مجھے دے دیجیے آپ ۔۔۔ ایک منٹ یہیں ٹھہرئیے آپ، میں ڈرائیور کو ڈھونڈتا ہوں۔ اسے کہابھی تھا کہ یہیں مرکزی دروازے پر رہنا مگر ۔۔۔ خیر، بس ایک منٹ۔‘‘ سیکریٹری دائیں بازو میں دبوچی فائلوں کو بائیں بازو میں منتقل کرتا ہے اور دایاں ہاتھ آگے بڑھا کر مجھ سے فائل وصول کرتا ہے۔ اس سارے عمل کے دوران میں اُس کی آنکھیں تیز تیز گردش کرتی ہوئی ڈرائیور کو تلاش کرتی رہتی ہیں۔’’سر، کوئی شاپنگ وغیرہ کرنی ہو تو آج ہی کر لیجیے، کل کراچی کے لیے فلائٹ ہے ۔۔۔ اور وہاں سے پِنڈی، آپ جانتے ہی ہیں‘‘۔ وہ کہتا ہے۔
’’ ہُوں ۔۔۔!‘‘میں کچھ سوچتے ہوئے بس اتنا کہہ پاتا ہوں۔

مجھے یہاں سے کوئی خریداری نہیں کرنا، مجھے تو پاکستان واپس جانے سے پہلے کریم بھائی کو ڈھونڈنا ہے!ایک بار دیکھناہے انہیں۔اور بس!

مجھے یاد ہے چار سال پہلے۔۔۔سن ۷۰کی سردیوں میں رُک رُک کر چلتی علاحدگی کی آندھی میں جب ’’بھولا‘‘ کی جان لیوا طوفانی شدت بھی آن شامل ہوئی تھی تو اپنے ہی مشرقی بازو سے زمینی اور ذہنی رابطوں میں تسلسل کتنا مشکل ہو گیا تھا۔کیا بتاؤں! ایک طرف لاکھوں جانوں کی تلفی کا غم اور دوسری جانب بے بہا احساسات کے خسارے کا دکھ۔بے اعتبار موسم اورگنجلک حالات کے جھکڑوں کا مقابلہ کرتے ہوئے کس مہم جوئی سے میں نے ان کا کھوج لگایا تھا، یہ میں ہی جانتا ہوں۔ حالانکہ تب بھی وہ ریڈیو پاکستان سے منسلک تھے اورمیری اطلاع کے مطابق ڈھاکہ ہی میں تعینات تھے۔ مگر اس قدرتی آفت و غیض کی رفتار کے مقابل رفتارِ صدا بھی تو نہ ٹھہر پا رہی تھی۔ یہ تو میرے اعلیٰ سرکاری عہدے کی دین تھی کہ ریڈیو کے ذمہ دار اہل کاروں کی مدد سے ان کی خیریت کی خبر مجھ تک پہنچ پائی۔ اللہ بھلا کرے اپنے پرانے دنوں کے بنگالی ساتھی جلیل صاحب کا کہ ہم لگ بھگ ایک ہی دور میں سرکاری ملازمت میں آئے تھے، وہی اب اُدھر میرا موثر ترین رابطہ یا وسیلہ ٹھہرے۔
میں یہ کیسے بھول سکتا ہوں کہ اب سے کوئی پانچ برس قبل یہ جلیل صاحب ہی تھے جنہوں نے مجھے ایک روز ریڈیو پاکستان کراچی کے دورے کے دوران بتایا تھا کہ ہمارے مشترکہ دوست کریم بھائی ڈھاکہ منتقل ہو رہے ہیں۔ میں اُس روز جلدی میں تھا۔حکومت کے کچھ نئے اقدامات پر ایک انٹرویو ریکارڈ کروانا تھا اور پھر وہاں سے وزارتِ خارجہ کے دفتر پہنچنا تھا صدر ِ مملکت کے دورۂ چین کی تفصیلات کے بارے میں ہونے والے ایک خصوصی اجلاس میں شرکت کے لیے۔ مگر کریم بھائی کے ڈھاکہ روانہ ہونے سے پہلے میں نے ان سے ملاقات کو بہرحال ممکن بنا لیا تھا۔ سچ بتاؤں تو کوششیں تو رنگ لائی تھیں میرے سیکریٹری نظامی صاحب اور ریڈیو والے جلیل صاحب کی، میں تو نتیجہ کا پھل کھا رہا تھا۔
شام کی چائے پر ملاقات طے ہوئی تھی میرے ہاں۔
میں نے ان دونوں کو گیٹ سے داخل ہوتے دیکھ لیا تھا۔میں باہر برآمدے ہی میں تو بیٹھا تھا۔درمیان سے مانگ نکالے، ناک پر عینک جمائے، چمک دار سیاہ بوٹوں کو ایڑھی تک ڈھانپے ہوئے ہلکی نیلی پتلون کے اوپر کو مُڑے پائنچے اور قدرے گہرے نیلے رنگ کی شرٹ میں اوپر کے دو بٹن کھلے چھوڑے ہمارے جلیل صاحب اور ان کے ساتھ بائیں طرف سے مانگ نکالے، کُھلا، ٹخنوں سے ذرا سا اونچا، سفید پاجامہ اورسفید یا سفیدی مائل بٹن بند کُرتا اور اس کے اوپر خاکی رنگ کی واسکٹ اور پاؤں میں بھورے سلیپرز پہنے کریم بھائی۔ میرے اندر اس لمحے ایک عجیب سا احساس کِھل اٹھاتھا؛ وہ خوشی تھی؟ دکھ تھا؟ حیرت تھی؟فخر تھا؟ اطمینان تھا؟ نہ جانے کیا تھا۔ یا شاید کوئی ایک نہ تھا ان سب کا اور جانے کس کس کا مرکب یا مجموعہ تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آیا۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتے برآمدے کی طرف بڑھتے آرہے تھے اور میں تھا کہ بس دیکھے جا رہا تھا۔ بالکل ایسے، بالکل ایسے ہی تھے وہ جب نئے سرکاری افسران کے تربیتی ادارے میں پہلی بار انہیں دیکھا تھا۔ بس سیاہ بالوں میں چاندی کی ملاوٹ ہو گئی تھی مگر وہ بھی زیادہ نہیں۔ ان کے مقابلے میں جلیل صاحب اور میں عمر کی منزلیں زیادہ تیزی سے طے کرتے محسوس ہوئے۔ جلیل صاحب بھی بالوں کے جھنجھٹ سے کافی حد تک آزاد ہو چلے تھے اور میں ۔۔۔ خیر میری بات چھوڑئیے، میں تو ہیٹ پہنتا ہوں۔ ہیٹ کے نیچے بالوں کی صورتِ حال ۔۔! اب اس بارے میں غور کرنے کا وقت ہی کب رہا تھا وہ دونوں تو اب برآمدے کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ کل تین سیڑھیاں تھیں۔ سیمنٹ کی فراخ اور ہموار سلیٹی رنگ سیڑھیوں کو دو سفید براق مدوّر ستونوں نے خواہ مخواہ بارعب سا بنا دیا تھا۔ میں کھڑا ہوگیا تھا۔ شفاف فرش پر احتیاط سے پاؤں رکھنے کے باوجود کریم بھائی کے سلیپرز کی آواز صاف سنائی دیتی تھی۔ لیکن میری توجہ تو ان کی روشن آنکھوں کی طرف مرکوز تھی جن کی چمک میرے چہرے کو نشانے پر لیے ہوئے تھی۔
’’السلام علیکم، بھئی بنگلہ تو شان دار بلکہ بہت ہی شان دار ہے،میرے جناب!‘‘ انہوں نے برآمدے سے ملحق بہت ترتیب سے کٹے لان پر ڈھلتی دھوپ کی سنہری چادر کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے پہلا جملہ کہا تھا۔ وہ مجھے ’میرے جناب‘ کہہ کر مخاطب کیاکرتے۔
’’بنگلہ یعنی بنگلہ زبان ۔۔۔ شان دار ہے؟‘‘ جلیل صاحب نے چھیڑتے ہوئے کہا۔
’’ہاں بنگلہ زبان بھی شان دار ہے ۔۔۔ اور زبان تو اُردو بھی کم نہیں۔ میں تو اس گھر کی بات کررہا ہوں، بھائی۔‘‘کریم بھائی نے شائستہ انداز میں جواب دیا تھا۔
’’اور کیا خود شان دار نہیں ہیں یہ؟‘‘ جلیل صاحب شرارت آمیز دوستانہ لہجے میں بولے تھے۔
’’ہاں،بالکل ۔۔۔ بشرطیکہ یہ ہیٹ پہنے رہیں‘‘۔ کریم بھائی نے جھٹ کہاتھا۔ اور ہمارا مشترکہ قہقہہ ان چڑیوں کی چہکار میں مدغم ہو گیا تھا جو برآمدے کے کونے سے جھانکتی گلابی پھولوں والی بیل سے اُڑی تھیں۔
’’کریم بھائی کا سر دیکھ لیں، ویسے کا ویسا بھرا ہوا ہے اور بال بھی ۔۔۔ بہت حد تک کالے ہی ہیں۔ دیکھ لیں آپ خود‘‘۔ جلیل صاحب جانے کیوں بدستور شرارت پر آمادہ تھے۔
’’بنگالی ہیں ناں، شاید اس لیے ابھی تک بال گھنے اور سیاہ ۔۔۔‘‘ میں نے کچھ کہنا چاہا مگر جلیل صاحب نے اپنے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فوراً لقمہ دیا:
’’جناب، بنگالی تو ہم بھی ہیں مگرہم تو کب کے بے بال و پر ہو چکے۔۔۔‘‘
’’اپنے بالوں کے بارے میں بے پر کی مت اُڑائیے آپ!‘‘۔ کریم بھائی نے مسکراتے ہوئے ان کے بال و پر کے محاورے کو دولخت کرتے ہوئے کہا تھا۔
ایک اور قہقہہ۔۔۔ اورپھر ہم ڈرائنگ روم میں آبیٹھے تھے جہاں چائے ہماری منتظر تھی۔
اِس سے پہلے کہ چائے کا آغاز ہوتا، ایک فون آگیا۔ ملازم نے ریسیور اُٹھایا اور میرے حوالے کردیا۔ دوسری طرف سے کل صبح ہونے والی ہنگامی میٹنگ کی یاددہانی کروائی گئی اور فون بند ہو گیا۔ اور میں ایک بار پھر اپنے پرانے دو ساتھیوں اور خوب صورت یادوں کے جِلو میں واپس آ گیاتھا۔
میں نے چائے دانی پر سے ٹی کوزی ہٹائی اور شفاف چینک سے بھاپ اگلتی چائے رنگین بیل بوٹوں سے سجے پورسلینPorcelain کے کپ میں انڈیلنا شروع کی تو جلیل بھائی بول اٹھے: ’’بس، بس، کافی ہے۔ آدھا کپ ہی کافی ہے میرے لیے۔‘‘
‘‘’’سوچ لیں، چائے ہمارے ہاں کی بہت لذیذ ہوتی ہے۔‘‘ میں نے ہاتھ روکتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ آپ کی چائے لذیذ ہے لیکن مجھے اپنی صحت عزیز ہے۔‘‘ جلیل صاحب ہنس کر بولے۔
’’تو اب آپ نے شاعری بھی شروع کردی۔ لذیذ اور عزیز خوب ملایا ہے۔‘‘ کریم بھائی جلیل صاحب کی طرف دیکھ کرچہکے۔
’’شاعری تو دور رہی میں تو تُک بندی بھی نہیں کرسکتا۔ویسے رنگا رنگ پروگرام کرتے کرتے انسان ہر فن مولا سا بن جاتا ہے ریڈیو میں‘‘۔جلیل بھائی نے کہا۔
’’جیک آف آل ٹریڈز ۔۔۔ آپ کا مطلب ہے!‘‘ میں نے لقمہ دیا۔
’’اینڈ ۔۔۔ ماسٹر آف نن‘‘۔ کریم بھائی نے محاورہ مکمل کردیا۔
’’اور آپ۔۔۔۔؟‘‘ میں نے چینک کا رخ کریم بھائی کے کپ کی طرف موڑتے ہوئے پوچھا۔
’’ارے میرے جناب! میں تو نہ جیک ہوں نہ ماسٹر۔۔۔میں تو۔۔۔‘‘ کریم بھائی کچھ اور سمجھے تھے۔ میں نے کہا:
’’وہ نہیں،میں تو چائے کا پوچھ رہا تھا۔ آپ بھی آدھا کپ ہی پسند فرمائیں گے یا۔۔۔۔‘‘
’’نہیں، نہیں۔ میں تو ابھی تک بھرا ہوا کپ پیتا ہوں۔ایسیڈیٹیAcidity کے بہانے تو جلیل صاحب کو زیب دیتے ہیں۔‘‘کریم بھائی بولے تھے۔
’’ہاں تو اب بتایئے، کیوں واپس جانا چاہتے ہیں آپ ڈھاکہ ؟کراچی اچھا نہیں لگتا کیا؟‘‘ میں نے چائے کی پہلی ہی چُسکی کے بعدکپ پلیٹ میں رکھتے ہوئے کریم بھائی سے پوچھا۔
’’نہیں ایسی بات نہیں،میرے جناب! بس کافی دن ہو گئے اِدھر، سوچتا ہوں اب اُدھر کی بھی کچھ خیر خبر لی جائے۔‘‘وہ دھیرے سے بولے۔
’’خیر لیں نہ لیں خبر ضرور لیجیے گا، وہ ہمارا چھیلا فاروق جب سے اُدھر گیا ہے پلٹ کر کبھی پوچھا تک نہیں۔۔۔اس کی تومیری طرف سے بھی خوب خبر لیجیے گا۔‘‘جلیل بھائی نے ہنستے ہوئے بات آگے بڑھائی۔
’’آپ خود کتنی بار اُدھر گئے ہیں؟ جلیل بھائی!‘‘ کریم بھائی نے کپ میں چمچ گھماتے ہوئے اورکنکھیوں سے ان کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’میری بات تو اور ہے ناکریم بھائی، نوکری ہے۔ اور پھر بیوی بچہ، گھر۔خیر، آپ نے تو یہ’’جھونجھٹ‘‘ پالا نہیں۔مجھ سے پوچھیے ۔۔۔ ’کیا کورے گا یہ شالا تھرڈ ورلڈ کا گرِیب باشندہ‘؟‘‘ انہوں نے ہنستے ہوئے جان بوجھ کر بنگالی لہجے میں جواب دیا۔
’’پھر بھی کریم بھائی آپ کیوں۔۔۔۔‘‘ میرا جملہ پھر ادھورا رہ گیا کیونکہ جلیل صاحب کی جملہ بازی پھر سے بازی لے جانے پہ تُلی ہوئی تھی۔
’’ان کے بس میں ہو تو ٹائم مشین کے بِنا ہی انیس سو سینتالیس کے لاہور جا پہنچیں اور تیرہ چودہ اگست کی درمیانی شب لاہور ریڈیو سے پہلا اعلان کریں: ’یہ ریڈیو پاکستان‘ہے۔‘‘
’’مگر وہ اعزاز تو ہمارے مصطفٰے علی ہمدانی صاحب لے چکے۔ یہ تو بس قسمت کی بات ہے۔ کریم بھائی،یقین جانیے اُس وقت اگر آپ لاہور میں ہوتے تو یہ اعزاز آپ ہی کو ملنا تھا۔ مگر کیا کریں ۔۔۔ ‘‘اس بار میں نے خود ہی جملہ ادھورا چھوڑ دیا تھا۔ جلیل صاحب تو فرانسیسی رکابی میں سے بادام والا ایک بسکٹ اُٹھا کرصوفے پر نِیم دراز سے ہو گئے تھے اور گراموفون پر دھیرے دھیرے بجتی بیتھوون کی دُھن پر سر دھن رہے تھے۔
’’لیکن صاحب!وہ تو ایک بار کی بات ہے نا۔ اُس کے بعد آپ نے ’یہ ریڈیوپاکستان ہے‘، ’یہ ریڈیوپاکستان ہے‘ کا اعلان کتنی بار کیا ہو گا، ریڈیو کے مائیک پر اس کی تعداد معلوم ہو گی کسی کو؟ ان گنت بار ۔۔۔ نہیں کیا؟‘‘ جلیل صاحب ان کے احساسِ محرومی کو کم کرنے کی کوشش میں کہہ رہے تھے۔
’’کریم بھائی، یاد ہے آپ کو جب دِلّی ریڈیو پر آپ کا شُستہ اُردو لہجہ سُن کر ۔۔۔ وہ ۔۔۔ وہ ۔۔۔کیا نام تھا ان کا ۔۔۔ ہاں صدیقی صاحب۔ حیران رہ گئے تھے صدیقی صاحب۔‘‘ میں نے بھی دل جوئی کی کوشش کی۔
’’کیا آپ کو ان صاحب کا نام یاد ہے جو ہر بار چائے پر ’’تلفوظ‘‘ والا چٹکلہ سنایا کرتے تھے ۔۔۔ اور کمال یہ کہ ہر بار ’’برینڈ نیو جوک‘‘ کہہ کر سناتے تھے۔ کیا وہ واقعی اتنے بھلکّڑ تھے یاپھر یونہی ہمیں بناتے تھے؟‘‘ کریم بھائی کی طبیعت کا بوجھل پن کچھ کم ہو رہا تھا۔اس کے بعدکے لمحات کس تیز ی سے گزرے، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔کچھ باتیں کیں،کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے۔فضا پر بیتھوون کا آہنگ چھایا ہوا تھا یا جدائی کا بے چین رنگ!۔۔۔یقین سے کچھ کہہ نہیں سکتا ۔۔۔ پھر ان دونوں نے رخصت چاہی۔
شام کومیری بھی مصروفیت تھی۔ امریکہ سے آئے میری بیگم کے ایک کزن اور ان کی فیملی کھانے پر مدعو تھی پھر بھی میں نے تکلفاً ان دونوں سے رات کے کھانے تک رُکنے کے لیے کہاضرور تھا۔ کریم بھائی نے سفر کی تیاری کو جواز بنایا اور جلیل صاحب نے انہیں گھر واپس پہنچانے کی ذمہ داری کی آڑ لی اور یوں دونوں چلے گئے۔
میں انہیں گیٹ پر رخصت کرکے لوٹا تو کچھ دیر وہیں برآمدے ہی میں بیٹھ رہاتھا۔ سورج اپنی دھوپ کی چادر سمیٹ چکا تھا۔ چڑیاں لان کے مرکز میں ایستادہ پیڑ کے سبز پتوں اور زرد کلیوں والے دامن میں کہیں چپ چاپ دبکی ہوئی تھیں اورایسے میں ہلکی ہلکی ہوا کی سمفنی کی لے پر یادوں کی پنکھڑیاں ایک ایک کرکے دھیرے دھیرے کُھلنے لگی تھیں۔

کیا دن تھے وہ بھی!۔۔۔ جوانی، جوش، ذاتی ترقی کا ارمان، اجتماعی آزادی کا خواب اور ایک دھندلا سا منظر جس میں رفتہ رفتہ ایک سبز ہلالی پرچم واضح ہوتا جاتا تھا۔ دو ہاتھ جو اسے فضا میں لہرائے جارہے تھے۔ اور پھرجناح کیپ پہنے اس روشن ہیولے کے پس منظرمیں کریم بھائی کا پُرجوش دمکتا چہرا اور ایک نعرہ: ’پاکستان زندہ باد‘۔ اور بس۔شاید یہی ان کا کل اثاثہ تھا۔ یہی ان کا خواب تھا اور یہی ان کی منزل۔ اپنے حقیقی رشتہ داروں کے بارے میں بہت کم بات کرتے تھے۔ ایک بار میں نے پوچھا تو بس اتنا کہہ پائے ’’سن چھیالیس کے کلکتہ فسادات بہت کچھ چھین لے گئے، اب کس کس کو یاد کروں، کس کس کا ماتم کروں!‘‘ اور خاموش ہو گئے۔ وہ کیسے مغربی بنگال پہنچے؟ کہاں کہاں رہے؟کیسے رہے؟ ان سوالوں کے جواب گویا ایک ایسے کینوس پر نقش تھے جو آنکھوں کو تو بہرحال خالی دکھائی دیتا ہے؛ کورا کینوس۔
’’آپ کا اپنا کوئی گھر تو ہو گا!‘‘ میں نے پوچھا۔ تو پرچم لہراتے ہوئے بولے: ’’گھر بنا نے ہی تو جارہا ہوں۔ اپنا گھر۔‘‘
’’پگلے ہیں آپ تو کریم بھائی۔بالکل پگلے۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے پیار سے کہا۔ وہ معصومیت سے پرچم کو دیکھے جارہے تھے۔
پھر ان کا گھر بن گیا۔ پاکستان کے قیام پر انہوں نے ریڈیو ہی سے منسلک رہنا پسند کیا۔دِلّی، ڈھاکہ، کراچی اور اب پھر ڈھاکہ۔۔۔!
زندگی کی تصویریں ایک ایسی تیزرفتار ریل گاڑی کی طرح یادوں کے اسٹیشنز سے گزرتی چلی جارہی تھیں جس میں ماضی، حال اور مستقبل شاید ایک ہی ڈبے میں سوار ۔۔۔ بند کھڑکیوں میں سے جھانک رہے تھے۔

ہماری الوداعی ملاقات کو کچھ دن ہی گزرے ہوں گے کہ کریم بھائی ڈھاکہ چلے گئے۔ کس دن؟ مجھے پتہ نہیں۔ ان دنوں دفتری کام بہت بڑھ گیا تھا۔ تاہم مجھے اطلاع مل گئی تھی۔
اور پھر جیسا کہ ہوتا آیا ہے ۔۔۔ زندگی کی گاڑی کی رفتار اور بھی تیز ہو گئی تھی۔بھولا طوفان کی تباہ کاری کا سُن کر سوچا تھا کہ سرکاری وفدکے ساتھ سفر کا جواز بن جائے گا مگر صدر صاحب چین سے سیدھے ہی ڈھاکہ چلے گئے تھے ایک دن کے لیے۔ سو میں نہ جا سکا۔ طوفان توخیر رفتہ رفتہ کم زور پڑگیا مگر باہم عدم اعتماد کی اس لہر کو اور بھی مضبوط اور منہ زور بنا گیا جس نے آنے والے دنوں میں ضبط کے کئی پُشتے خس و خاشاک کی طرح بہا دیئے۔
میں تب ڈھاکہ تونہیں جا سکا تھا مگر میں نے ملک ہاتھوں سے جاتے ضروردیکھا۔ دل کی شکستگی کا نظارہ کیا، بھیگی بھیگی خاموشی کے ساتھ، پتھرائی پتھرائی آنکھوں کے ساتھ۔۔۔ پھر زندگی کی گاڑی جیسے حالات کی کسی پراسرارسرنگ میں داخل ہو گئی تھی۔ جس میں شور تو سنائی دیتاتھا مگر کچھ صاف دکھائی نہ دیتا تھا۔مناظر عجب ڈھنگ میں گڈ مڈ سے ہو رہے تھے۔جیسے فلم کی ایک رِیل ختم ہونے سے پہلے ہی دوسری رِیل چل پڑی ہو اور پردے پر بے ہنگم آوازیں اور تصویریں باہم الجھ رہی ہوں۔
پھر آہستہ آہستہ سرنگ کے دوسرے دہانے کا اجالا سا قریب آتا محسوس ہوا۔تسلیم و رضا کی منزلوں سے گزر کر سن ۷۴ کی فضا میں نکل آئے تھے ہم۔ ادھورے اور دھندلے دوطرفہ معاملات کو مکمل اور واضح کرنے کی کوششیں آغاز ہوئیں تو وفود کے سرکاری تبادلوں کا بازار بھی گرم ہوا۔ ایسے ہی ایک پانچ روزہ سرکاری دورے کا میں بھی حصہ ہوں جو ا ب ختم ہونے جارہا ہے۔

اور میرے ذہن و دل پر ایک ہی خیال چھایا ہوا ہے کہ کل واپسی کی پرواز ہے۔ اور اس سے پہلے مجھے کریم بھائی کو ڈھونڈنا ہے۔

سرکاری اثرو رسوخ استعمال کر کے اتنا معلوم کرچکا ہوں کہ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد انہوں نے ریڈیو کی ملازمت ترک کر دی تھی اور ڈھاکہ سے کوئی ایک گھنٹے کے فاصلے پر کومِیلا کے علاقے میں جا بسے تھے۔ پھر کچھ عرصہ بعد وہاں سے بھی آگے جمال پور میں دیکھے گئے تھے۔
اب کار جمال پور کی طرف رواں دواں ہے۔ڈھاکہ سے جلیل صاحب کو بھی میرے ساتھ ہی آنا تھا مگر انہیں اچانک کسی ضروری مصروفیت نے آن لیا۔ کہنے لگے کہ میں روانہ ہو جاؤں مجھے وہیں ملیں گے، سکول والی گلی کی نکڑ پر۔ تین گھنٹے سے زیادہ وقت لگا ہے مجھے یہاں جمال پور پہنچنے میں۔سکول والی گلی کی نکڑ، جلیل صاحب اورپگلے بابا کا گھر۔ سب کتنی آسانی سے مل گئے ہیں۔کریم بھائی کو پگلے بابا کا خطاب وقت کی عطا ہے یا حالات کی، کون جانے!۔ڈرائیور نے سرکاری کار کچھ دور نیم پختہ راستے پر ہی روک لی ہے۔سامنے کچا راستہ ہے جو سادہ سے،خستہ سے گھر پرجا کر ختم ہو جاتا ہے۔ ادھر قدم بڑھاتے ہو ئے میں گویا بڑبراتا ہوں:
’’کریم صاحب ریڈیو کیوں کرچھوڑ سکتے ہیں۔ ریڈیو تو ہمیشہ سے ان کا عشق رہا ہے؟‘‘
’’آپ کچھ بھول رہے ہیں۔ ان کا عشق محض ریڈیو نہ تھا جناب، ایک خواب بھی تھا۔‘‘ جلیل صاحب اپنے دونوں ہاتھ نیلی پتلون کی جیبوں میں ڈالتے ہوئے چلتے چلتے کہتے ہیں۔ ’’سب کچھ ہوجانے کے بعد کی بات ہے۔مجھے یاد ہے جب کریم بھائی ریڈیو سٹیشن پہنچے تھے تو میں بھی وہیں تھا۔سٹوڈیو میں داخل ہوئے تو حسبِ عادت ایک نظر دیوار پر آویزاں گھڑی اور اس کے نیچے لگی بتّی پر ڈالی۔ جو ابھی سبز تھی۔ پھر ایک نظر سٹوڈیو کے گول میز پر ڈالی اور آہستہ سے بولے:’’یہ سُرخ دائرہ یہاں کیوں ہے؟‘‘ عجیب ترسیدگی کے عالم میں مجھے مُڑ کر دیکھا اور کرسی کی پشت کا سہارا لیا۔ مجھے لگا ابھی گر جائیں گے۔ میں نے بیٹھنے میں مدد کی۔ شیشے سے دوسری طرف عملہ بالکل مستعد اور منتظر تھا اور اس خوش نصیب براڈ کاسٹر پر رشک کررہا تھا جسے نو زائدہ ملک کے قیام کے بعد پہلااعلان کرنے کا اعزاز حاصل ہونے جارہا تھا۔ ایک نظر انہوں نے حسبِ عادت اُدھر دیکھا۔ پھر ایک نظر سامنے میز پر پڑے کاغذ پر ڈالی اور جیسے وہیں پتھرا سے گئے۔ان کے منہ سے نکلا: ’یہ ریڈیو ۔۔۔۔۔ یہ ریڈیو پ ۔۔۔ پپا ۔۔ ب ۔۔۔ ب ۔۔۔ ‘ وہ آگے نہیں پڑھ پائے تھے۔ میں انہیں باہر لے آیا تھا۔بس پھر وہ خاموش ہو گئے۔ بہت خاموش اور غالباً بہت اکیلے بھی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے جلیل بھائی کواڑ پر ہلکی سی دستک دیتے ہیں۔میں دیکھتا ہوں کہ بارش خوردہ شکستہ چوبی دروازے کے دونوں کواڑ ٹیڑھے میڑھے سے ہیں۔ بائیں طرف صحن میں ہینڈ پمپ لگا ہے جس کے نیچے ٹین کی ایک بالٹی پڑی ہے۔
ایک بھری ہوئی بالٹی۔

جلیل صاحب پھر سے دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔ تھوڑی دیرخاموشی ۔۔۔ پھرسلیپرز گھسٹنے کی شناسا سی آواز اور پھر ۔۔۔ آہستہ سے دروازہ کھل جاتاہے۔ وااااہ۔ سامنے کریم بھائی کھڑے ہیں۔ گردن ذرا سی خمیدہ، بالوں میں چاندی کی شرح میں کچھ اضافہ،مگر آنکھوں میں چمک وہی۔ مجھے دیکھ کر مسکراتے ہیں۔
’’ارے، ارے آپ میرے جناب!آئیے آئیے اندر تشریف لائیے۔‘‘ وہ ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں۔’’ایک ایک کپ چائے ہو جائے‘‘۔
میں ان کا ہاتھ تھام لیتا ہوں مگر نہ بولتا ہوں اور نہ قدم اٹھاتا ہوں۔ بس انہیں دیکھے جاتا ہوں۔
’’جلدی میں ہوں۔ آج ہی واپسی کا سفر ہے۔ پھر آؤں گا تو ضرور پیوں گا۔بھرا ہوا کپ پیوں گا۔ وعدہ ۔۔۔ ابھی تو کار تیار کھڑی ہے۔‘‘ میں ادھر اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہوں۔
اچھا تو ٹھیک ہے ۔۔۔ جیسے آپ کی خوشی۔‘‘ وہ نرمی سے کہتے ہیں۔ پھر میرے پیچھے کھڑے جلیل صاحب کو دیکھ کر مسکراتے ہیں: ’’ویسے تو آدھے کپ والے بھی آپ کے ساتھ ہی ہیں‘‘۔ایک پھیکی سی ہنسی!
’’یہ کیا کریم بھائی! آپ سب کچھ چھوڑ چھاڑکر یوں ۔۔۔ آخر کیوں؟‘‘ میں اتنا ہی کہہ پاتا ہوں۔
’’پتہ نہیں، میں کم زور ہو گیا ہوں یا بوڑھا یا پھرعادی ۔۔۔ پتہ نہیں ۔۔۔ ’یہ ریڈیو‘ کے بعد ہمیشہ ’پاکستان‘ ہی بولا تھا۔ کیا کرتا! بس نیا اعلان زبان سے نکلا ہی نہیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں۔ بے بسی اور فخر کو یوں یکجا دیکھنے اور سننے کا یہ میرا پہلا موقع ہے۔
’’نہیں آپ کمزور نہیں ہیں۔ بات بس اتنی سی ہے کہ حکومتوں کے ساتھ اعلانات بدل گئے ہیں۔یہ تو ہوتا ہی ہے نا۔ آل انڈیا ریڈیو سے ریڈیو پاکستان اور اب ۔۔۔ ریڈیو بنگلہ دیش یا بنگلہ دیش بے تار، جو بھی کہہ لیجیے۔ ریڈیو تو قائم ہے بس پاکستان ٹوٹا ہے۔‘‘ میں ہمت کر کے الفاظ کو حتی المقدور بامعنی رکھتے ہوئے بہت محتاط اعلامیہ سا جاری کرتا ہوں۔ جانے میں کیا کہنا چاہتا ہوں!
’’پاکستان ٹوٹ گیا، یہ کیا بات کی آپ نے میرے جناب؟ پاکستان کیسے ٹوٹ سکتا ہے بھلا؟‘‘ وہ ہڑبڑاتے ہیں جیسے برق کے کوندے نے اچانک کسی بچے کی نیند اچک لی ہو۔
’’پاکستان تو بہرحال ۔۔۔ میرا مطلب ہے کریم بھائی ۔۔۔ اب آپ کو اور ہمیں ۔۔۔حقیقت ۔۔۔‘‘ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں لیکن۔۔۔
’’پاکستان کیسے ٹوٹ سکتا ہے، آپ بھی عجیب بات کرتے ہیں،کون پاکستان توڑ سکتا ہے ۔۔۔ پاکستان تو میرا خواب ہے ۔۔۔ میرا اپنا خواب ۔۔۔ کوئی بھلا کیسے توڑ سکتا ہے میرا خواب!؟ ۔۔۔ کوئی نہیں ۔۔۔ آپ بھی نہیں میرے جناب،سن لیجیے ۔۔۔ آپ بھی نہیں۔۔۔‘‘

فضا میں عجیب سا ابہام گُھلنے لگاہے۔ اکڑی ہوئی کرسیوں اور دفتری راہداریوں سے اتنے دُور بھی مجھے نہ جانے کیوں تذبذب کی ہلکی ہلکی سی گونج سنائی دینے لگی ہے۔شاید خاموشی بجنے لگی ہے۔اب کے بادل بادل گِھر آتی جدائی کے رنگ میں بیتھوون کا آہنگ کہِیں سنائی نہیں دے رہا۔ جانے کیا ہوا ہے!

پگلے بابامیرے چہرے کو اپنی آنکھوں کی چمک کے نشانے سے آزاد کرکے گھر کی طرف پلٹ رہے ہیں ۔۔۔ پھر سے اپنے خواب میں داخل ہونے کو ۔۔۔ اور ۔۔۔ کار کا رُخ کرتے ہوئے میں دروازہ بندہونے کی آواز سنتا ہوں ۔۔۔ بارش خوردہ چوبی دروازہ جس کے دونوں کواڑ ٹیڑھے میڑھے ہیں۔ بائیں طرف صحن میں ہینڈ پمپ لگا ہے جس کے نیچے ٹین کی ایک بالٹی پڑی ہے۔
ایک خالی بالٹی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment