قاضی حبیب الرحمن ۔۔۔۔۔ ترا خیال ، کُشادِ فضائے تازہ ہے

ترا خیال ، کُشادِ فضائے تازہ ہے ہر انتہائے نظر ، ابتدائے تازہ ہے پلک جھپکتے ہی منظر بدلنے لگتا ہے تعلقات کی (ہر پَل) بنائے تازہ ہے کہ جیسے ٹوٹ رہا ہے سکوت صدیوں کا ہَوا کے ہونٹ پہ خنداں ، صلائے تازہ ہے بدل رہی ہے زمیں بھی نئی رُتوں کا لباس اُفق پہ ناچ رہی اک شعاعِ تازہ ہے چمن چمن ، ترے جلووں کے رنگ بکھرے ہیں صدف صدف ، گہر افشاں ، ادائے تازہ ہے بُلا رہی ہے ابھی تیرے جسم کی خوشبو سما رہی…

Read More

قاضی حبیب الرحمن ۔۔۔۔۔۔ تلاشِ ذات میں اپنا نشاں نہیں ملتا

تلاشِ ذات میں اپنا نشاں نہیں ملتا یقین کیسا؟ یہاں تو گماں نہیں ملتا سفر سے لوٹ کے آنا بھی اک قیامت ہے خود اپنے شہر میں اپنا مکاں نہیں ملتا بہت دنوں سے بساطِ خیال ویراں ہے بہت دنوں سے وہ آشوبِ جاں نہیں ملتا جہاں قیام ہے اُس کا ، عجیب شخص ہے وہ یہ واقعہ ہے کہ اکثر وہاں نہیں ملتا گواہ سارے ثقہ ہیں ، مگر تماشا ہے کسی کے ساتھ کسی کا بیاں نہیں ملتا شعورِ جاں ، عوضِ جاں ، بسا غنیمت ہے کہ…

Read More

ثاقب لکھنوی ۔۔۔۔۔ جو کل نہیں، آج کیا کریں گے

جو کل نہیں، آج کیا کریں گے عالم کا خراج کیا کریں گے دنیا سے شہیدوں کو علاقہ! سر ہی نہیں، تاج کیا کریں گے اُن آنکھوں سے ہو اُمید کیوں کر بیمار، علاج کیا کریں گے ہم خاکِ زمیں پہ سونے والے شاہوں سے مزاج کیا کریں گے رہنے دو ہماری عادتوں کو ہم رسم و رواج کیا کریں گے جمیعتِ دل ہے خوب، لیکن آشفتہ مزاج کیا کریں گے دو روز کی زندگی ہے ثاقب ہم کشور و تاج کیا کریں گے

Read More