حبیب الرحمان مشتاق ۔۔۔ سخن کے نِت نئے میں رنگ و بُو نکالتا ہوں

سخن کے نِت نئے میں رنگ و بُو نکالتا ہوں خموشیوں سے تری گفتگو نکالتا ہوں ہر ایک ہاتھ میں پتھر دکھائی دیتا ہے میں اپنے گھر سے قدم جب کبھو نکالتا ہوں پھر اُس کے بعد میں اپنے لئے بھی بچتا نہیں اگر میں دل سے تری آرزو نکالتا ہوں بھلا نہ پایا جُنوں میں بھی روزگار کا غم میں خارِ دشت سے کارِ رفو نکالتا ہوں برائے وسعتِ ملکِ سخن ، بنامِ سخن میں اپنا لشکرِ فن چارسو نکالتا ہوں سکھانا پڑگیا فرہاد کو یہ فن آخر یہ…

Read More

بہار کی واپسی ۔۔۔ خلیل الرحمن اعظمی

بہار کی واپسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں چپ چاپ بیٹھا ہوں اس رہگزر پر یہی سوچتا ہوں کہ خط لانے والا کہیں آج بھی کہہ نہ دے: کچھ نہیں ہے یہ کیا بات ہے لوگ اک دوسرے سے جدا ہو کے یوں جلد ہیں بھول جاتے وہ دن رات کا ساتھ ہنسنا ہنسانا وہ باتیں جنھیں غیر سے کہہ نہ پائیں اچھوتے سے الفاظ جو شاہراہوں پہ آتے ہوئے دیر تک ہچکچائیں کچھ الفاظ کے پھول جو اس چمن میں کھلے تھے جسے محفلِ دوش کہیے جو کچھ دیر پہلے ہی برہم…

Read More

سلسلے سوالوں کے ۔۔۔ خلیل الرحمن اعظمی

سلسلے سوالوں کے ۔۔۔۔……۔۔۔۔۔۔۔ دن کے چہچہوں میں بھی رات کا سا سنّاٹا رات کی خموشی میں جیسے دن کے ہنگامے جاگتی ہوئی آنکھیں، نیند کے دھندلکوں میں خواب کے تصوّر میں اک عذابِ بیداری روز و شب گزرتے ہیں قافلے خیالوں کے صبح و شام کرتے ہیں آپ اپنی غم خواری ہم کہاں ہیں؟ ہم کیا ہیں؟کون ہیں مگر کیوں ہیں؟ ختم ہی نہیں ہوتے سلسلے سوالوں کے چشمۂ ہدایت ہے علم کے صحیفوں میں فن کے شاہکاروں میں اک چراغِ عرفاں ہے مرحمت کے ساماں ہیں ان کی…

Read More

نیا آدمی ۔۔۔ خلیل الرحمن اعظمی

نیا آدمی ۔۔۔۔۔۔ اور پھر یوں ہوا جو پرانی کتابیں، پرانے صحیفے بزرگوں سے ورثے میں ہم کو ملے تھے انھیں پڑھ کے ہم سب یہ محسوس کرنے لگے ان کے الفاظ سے کوئی مطلب نکلتا نہیں ہے جو تعبیر و تفسیر اگلوں نے کی تھی معانی و مفہوم جو ان پہ چسپاں کیے تھے اب ان کی حقیقت کسی واہمے سے زیادہ نہیں ہے اور پھر یوں ہوا چند لوگوں نے یہ  آ کے ہم کو بتایا کہ اب ان پرانی کتابوں کو تہہ کر کے رکھ دو ہمارے…

Read More

حبیب الرحمان مشتاق ۔۔۔ نہ مل سکا وہ جو میرے تصورات میں ہے

نہ مل سکا وہ جو میرے تصورات میں ہے سنا تو یہ تھا کہ بازارِ شش جہات میں ہے مجھے زمیں کے مسائل سے تھوڑی فرصت دو مرا شعور فضائے تخیلات میں ہے میں تجھ کو اب تری تصویر سے نکالوں گا تجھے خبر نہیں یہ فن بھی میرے ہاتھ میں ہے کسی قدیم کھنڈر سے مجھے نکالا گیا شمار اس لئے میرا نوادرات میں ہے یہ قیس نام کے بندے سے اس کو کیا نسبت ازل سے دشتِ جنوں میری شاملات میں ہے مرے سوال کا کیا ہے فلک…

Read More

رحمان حفیظ ۔۔۔ متن و سنَد سے اور نہ تسطیر سے اْٹھے

متن و سنَد سے اور نہ تسطیر سے اُٹھے جھگڑے تمام حلقۂ تعبیر سےاُٹھے اِک جبر کا فریم چڑاتا ہے میرا مُونہہ پردہ جب اختیار کی تصویر سے سےاُٹھے فکر ِسخن میں یوں بھی ہوا ہے کبھی کہ ہم بیٹھے بٹھائے بارگہِ میر سے سےاُٹھے اس دل میں اک چراغ تھا سو وہ بھی گُل ہوا ممکن ہے اب دھواں مری تحریر سےاُٹھے پلکوں پہ یہ ڈھلکتے ہوئے اشک مت بنا ممکن ہے اتنا بار نہ تصویر سے سےاُٹھے

Read More

عطاء الرحمن قاضی ۔۔۔ مقابل وہی پھر گماں آگیا

مقابل وہی پھر گماں آگیا یہ میں چلتے چلتے کہاں آگیا ابھی ناؤ تھی لذّتِ موج میں کہ ساحل ہی کچھ درمیاں آگیا چھلکتی شبوں کے طلسمات میں گرفتارِ کوئے بتاں آگیا کسی ماہ رُو کے اشارے پہ رات ہواؤں پہ تختِ رواں آگیا صراحی میں کچھ رنگ تھے موجزن مرے ہاتھ میں آسماں آگیا یونہی جوئے نشّہ میں بہتا ہُوا سوئے دشت ، سروِ رواں آگیا دشاؤں میں کھلتا گیا کوئی دَر عجب لہر میں خاکداں آگیا گریزاں رہے جس سے ہم، روبرو وہی لمحۂ رایگاں آگیا کھلے بے…

Read More

حبیب الرحمان مشتاق ۔۔۔ صدائیں دیتا ہے کوئی ہر آن خالی کر

صدائیں دیتا ہے کوئی ہر آن خالی کر یہ خستہ حال پرانا مکان خالی کر زمانہ نت نئے اسلوب کی تلاش میں ہے تُو اپنے رسمِ کہن کی دکان خالی کر کنارہ تو نہیں، گرداب اپنی منزل ہے ہوا نکال دے، اب بادبان خالی کر تُو کس کی گھات میں بیٹھا ہے، اپنی خیر منا الٹنے والی ہے تیری مچان، خالی کر نشانہ چُوک نہ جائے لرزتے ہاتھوں سے اچھال تیر کماں سے، کمان خالی کر نویدِ صبحِ یقیں کوئی دے گیا مشتاق سو اب علاقہء وہم و گمان خالی…

Read More

رحمان حفیظ ۔۔۔ قفس ہے جو بہ شکلِ سائباں رکھا ہوا ہے

قفس ہے جو بہ شکلِ سائباں رکھا ہوا ہے ہمارے سر پہ یہ جو آسماں رکھا ہوا ہے تِری آنکھوں میں کیوں جھلکا نہیں رنگِ تمنّا؟ ترے سینے میں دِل کیا رائیگاں رکھا ہوا ہے! تکبر سے کمر کوزہ ہوئی ہے آسماں کی زمیں کو خاکساری نے جواں رکھا ہوا ہے کسی منظر میں بھی تا دیر رکتا ہی نہیں مَیں یہ چشمہ آنکھ کا مَیں نے رواں رکھا ہوا ہے مِرے الفاظ کو کندن بنا دے گا کسی دن زباں کی تہہ میں جو آتش فشاں رکھا ہوا ہے…

Read More

رحمان حفیظ

خدا کرے کہ مِرا بس چلے عناصر پر میں اور وقت بناؤں تری گھڑی کے لیے

Read More