بہار کی واپسی ۔۔۔ خلیل الرحمن اعظمی

بہار کی واپسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں چپ چاپ بیٹھا ہوں اس رہگزر پر
یہی سوچتا ہوں کہ خط لانے والا
کہیں آج بھی کہہ نہ دے: کچھ نہیں ہے
یہ کیا بات ہے لوگ اک دوسرے سے
جدا ہو کے یوں جلد ہیں بھول جاتے
وہ دن رات کا ساتھ ہنسنا ہنسانا
وہ باتیں جنھیں غیر سے کہہ نہ پائیں
اچھوتے سے الفاظ جو شاہراہوں پہ
آتے ہوئے دیر تک ہچکچائیں
کچھ الفاظ کے پھول جو اس چمن میں
کھلے تھے جسے محفلِ دوش کہیے
جو کچھ دیر پہلے ہی برہم ہوئی ہے
چراغوں سے اب تک دھواں اٹھ رہا ہے
در و بام پر اب بھی پھیلی ہوئی ہے
ہر اک سمت صہباۓ احمر کی خوشبو
ہوا میں ابھی شور ہے ہا و ہو کا
وہ اڑتے ہوئے کاگ کے قہقہوں سے
الجھتے ہوئے زمزمے بوتلوں کے
بناتے ہیں دیوار پر کتنے دھبے
ابھی ہنس رہے ہیں، ابھی بولتے ہیں
مری داستانوں کے دلچسپ کردار
سنسان گلیوں کے رنگین قصے
یہ سب میرے پیچھے چلے آ رہے ہیں
کوئی جیسے روٹھے ہوئے آدمی کو
مناۓ، بڑے پیار سے تھپتھپاۓ
دلاۓ کوئی یاد گزری ہوئی بات
ہاتھوں کو اس کے دبا کر کہے
دیکھنا دیکھنا کوئی انجان راہی ہے
یا لڑکھڑاتا ہوا کوئی پتّہ
خزاں کے پروں پر اُڑا آ رہا ہے
کوئی نامۂ شوق لے آ رہا ہے
ترے شہرِ سر و سمن کے گُلوں نے
خود اپنے ہی ہاتھوں سے تجھ کو لکھا ہے
چلے آؤ اب عہدِ گل آ گیا ہے

Related posts

Leave a Comment