عطاء الرحمن قاضی ۔۔۔ ساعتِ ہجر کو ارژنگ نوائی دے گا

ساعتِ ہجر کو ارژنگ نوائی دے گا وہ اگر ہے اسی منظر میں دکھائی دے گا اب گلابی میں کہاں جلوۂ گلزارِ ارم رند تڑپیں گے ہر اک جام دہائی دے گا خلوتِ ناز سے دوری نے رکھا گرمِ سفر مر ہی جاؤں گا اگر مجھ کو رسائی دے گا دے رہا ہے جو نمو زخم کو ، اک روز وہی دیکھنا ، مرہمِ گریہ مرے بھائی دے گا جھانکتا ہے یہ جو مہتاب کسی غرفے سے نیلمیں شام کو ساغر سے رہائی دے گا زخمہ ور ، چھیڑ! رگِ…

Read More

عطاء الرحمن قاضی ۔۔۔ مقابل وہی پھر گماں آگیا

مقابل وہی پھر گماں آگیا یہ میں چلتے چلتے کہاں آگیا ابھی ناؤ تھی لذّتِ موج میں کہ ساحل ہی کچھ درمیاں آگیا چھلکتی شبوں کے طلسمات میں گرفتارِ کوئے بتاں آگیا کسی ماہ رُو کے اشارے پہ رات ہواؤں پہ تختِ رواں آگیا صراحی میں کچھ رنگ تھے موجزن مرے ہاتھ میں آسماں آگیا یونہی جوئے نشّہ میں بہتا ہُوا سوئے دشت ، سروِ رواں آگیا دشاؤں میں کھلتا گیا کوئی دَر عجب لہر میں خاکداں آگیا گریزاں رہے جس سے ہم، روبرو وہی لمحۂ رایگاں آگیا کھلے بے…

Read More