کہیں مٹایا گیا تو کہیں بنایا گیا میں اُتنا یاد رہا جس قدر بھلایا گیا نہ مل سکی کبھی استھائی انترے کے گلے ہزار بار اگرچہ میں گنگنایا گیا بفیضِ پائے تخّیل، بزورِ فکرِ رسا جہاں میں تھا ہی نہیں ، اْس جگہ بھی پایا گیا کچھ آفتاب صفَت لفظ میری پشت پہ ہیں سو آنے والے دنوں میں بھی میرا سایہ گیا ہمارے لفظ سے معنٰی تلک جو حائل تھا نظر اٹھی تو وہ برجِ بلند پایہ گیا حیات خواب کی صورت گزر گئی اپنی بدستِ مرگ ہمیں نیند…
Read MoreTag: رحمان حفیظ
رحمان حفیظ
رحمان حفیظ
یقین کر ! میں کسی اور کی امانت ہوں مرے مشام میں اپنی کوئی مہک نہ ملا
Read Moreنعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ رحمان حفیظ
لئے چلا ہو کوئی اپنے ساتھ ساتھ مجھے اور ایک رشک سے تکتی ہو کائنات مجھے فروغِ عشقِ پیمبر ہو زندگی میری ورود ِاسم محمد ؐسے ہو نشاط مجھے سنا تھا ذکر مدینے کے اک سخنور کا پھر اس کے بعد نہ بھائی کسی کی بات مجھے خدا جو دے ہنرِ عرضِ حالِ دل رحمان تو ایک نعت ہو کافی پئے ثبات مجھے اسی صدا کے تعاقب میں چل پڑا میں حفیظ پکارتی ہی رہی ساری کائنات مجھے
Read Moreرحمان حفیظ
بہا کے لے گیا سب خدّو خال ِ عہدِ شباب ہم آئنے کو بھی آبِ رواں سمجھتے ہیں
Read Moreرحمان حفیظ ۔۔۔ ہمارے حق میں کسی کے جفر، رمل کوئی نئیں
ہمارے حق میں کسی کے جفر، رمل کوئی نئیں جو اہلِ دل کے مسائل ہیں ، ان کا حل کوئی نہیں عجیب شہر میں میرا جنم ہوا ہے جہاں بدی کا حل کوئی نئیں، نیکیوں کا پھل کوئی نئیں مرا سخن، مرا فن دوسروں کی خاطر ہے درخت ہوں ، مِری قسمت میں اپنا پھل کوئی نئیں ہم اہلِ فکر و نظر جس میں جینا چاہتے ہیں جہانِ گِل ! تری تقویم میں وہ پَل کوئی نئیں مِرے لئے نہ رکے کوئی موجِِ استقبال میں رزقِ لمحہ ء حاضر ہوں،…
Read Moreرحمان حفیظ ۔۔۔ متن و سنَد سے اور نہ تسطیر سے اْٹھے
متن و سنَد سے اور نہ تسطیر سے اُٹھے جھگڑے تمام حلقۂ تعبیر سےاُٹھے اِک جبر کا فریم چڑاتا ہے میرا مُونہہ پردہ جب اختیار کی تصویر سے سےاُٹھے فکر ِسخن میں یوں بھی ہوا ہے کبھی کہ ہم بیٹھے بٹھائے بارگہِ میر سے سےاُٹھے اس دل میں اک چراغ تھا سو وہ بھی گُل ہوا ممکن ہے اب دھواں مری تحریر سےاُٹھے پلکوں پہ یہ ڈھلکتے ہوئے اشک مت بنا ممکن ہے اتنا بار نہ تصویر سے سےاُٹھے
Read Moreنجیب احمد نمبر ۔۔۔ جنوری 2020ء تا جون 2020ء
نجیب احمد نمبر ۔.۔ کارواں جنوری تا جون 2020ء DOWNLOAD
Read Moreرحمان حفیظ ۔۔۔ قفس ہے جو بہ شکلِ سائباں رکھا ہوا ہے
قفس ہے جو بہ شکلِ سائباں رکھا ہوا ہے ہمارے سر پہ یہ جو آسماں رکھا ہوا ہے تِری آنکھوں میں کیوں جھلکا نہیں رنگِ تمنّا؟ ترے سینے میں دِل کیا رائیگاں رکھا ہوا ہے! تکبر سے کمر کوزہ ہوئی ہے آسماں کی زمیں کو خاکساری نے جواں رکھا ہوا ہے کسی منظر میں بھی تا دیر رکتا ہی نہیں مَیں یہ چشمہ آنکھ کا مَیں نے رواں رکھا ہوا ہے مِرے الفاظ کو کندن بنا دے گا کسی دن زباں کی تہہ میں جو آتش فشاں رکھا ہوا ہے…
Read Moreرحمان حفیظ
خدا کرے کہ مِرا بس چلے عناصر پر میں اور وقت بناؤں تری گھڑی کے لیے
Read More