رحمان حفیظ ۔۔۔ کہیں مٹایا گیا تو کہیں بنایا گیا

کہیں مٹایا گیا تو کہیں بنایا گیا
میں اُتنا یاد رہا جس قدر بھلایا گیا

نہ مل سکی کبھی استھائی انترے کے گلے
ہزار بار اگرچہ میں گنگنایا گیا

بفیضِ پائے تخّیل، بزورِ فکرِ رسا
جہاں میں تھا ہی نہیں ، اْس جگہ بھی پایا گیا

کچھ آفتاب صفَت لفظ میری پشت پہ ہیں
سو آنے والے دنوں میں بھی میرا سایہ گیا

ہمارے لفظ سے معنٰی تلک جو حائل تھا
نظر اٹھی تو وہ برجِ بلند پایہ گیا

حیات خواب کی صورت گزر گئی اپنی
بدستِ مرگ ہمیں نیند سے جگایا گیا

کوئی زمیں نہیں نا سازگارِ عشق یہاں
یہ پھول وہ ہے کہ آنکھوں میں بھی کھلایا گیا

Related posts

Leave a Comment