رحمان حفیظ ۔۔۔ اب وہ پہلے سا رہا کب ہے اتر کر مجھ میں!

اب وہ پہلے سا رہا کب ہے اتر کر مجھ میں!صاف کم تر نظر آتا ہے وہ بر تر مجھ میں آئنہ دیکھنا اب فرض ہُوا ہے مجھ پراب نظر آنے لگا ہے تیرا پیکر مجھ میں جس نے بھی دیکھا اسے چشمِ ہوس سے دیکھاباہر آئی جو تمناّ بھی، سنور کر مجھ میں جو کرن بن کے مِری آنکھ میں دَر آئی تھیآج بھی جیسے وہ ساعت ہے منوّر مجھ میں اوّل اوّل جو مِرے کان میں ٹپکائی گئیگونجتی ہے وُہی آواز برابر مجھ میں

Read More

رحمان حفیظ ۔۔۔ کہیں مٹایا گیا تو کہیں بنایا گیا

کہیں مٹایا گیا تو کہیں بنایا گیا میں اُتنا یاد رہا جس قدر بھلایا گیا تری تلاش میں چھانی ہے کائنات تمام میں اپنی ذات کے اندر بھی کتنا آیا گیا کوئی زمیں نہیں نا سازگارِ عشق یہاں یہ پھول وہ ہے جو آنکھوں میں بھی کھلایا گیا بفیضِ پائے تخیل، بزورِ فکرِ رسا جہاں میں تھا ہی نہیں، اس جگہ بھی پایا گیا کچھ آفتاب صفت لفظ میری پشت پہ ہیں سو آنے والے دنوں میں بھی میرا سایہ گیا ہمارے لفظ سے معنی تلک جو حائل تھا نظر…

Read More

رحمان حفیظ ۔۔۔ ہمارے حق میں کسی کے جفر، رمل کوئی نئیں

ہمارے حق میں کسی کے جفر، رمل کوئی نئیں جو اہلِ دل کے مسائل ہیں ، ان کا حل کوئی نہیں عجیب شہر میں میرا جنم ہوا ہے جہاں بدی کا حل کوئی نئیں، نیکیوں کا پھل کوئی نئیں مرا سخن، مرا فن دوسروں کی خاطر ہے درخت ہوں ، مِری قسمت میں اپنا پھل کوئی نئیں ہم اہلِ فکر و نظر جس میں جینا چاہتے ہیں جہانِ گِل ! تری تقویم میں وہ پَل کوئی نئیں مِرے لئے نہ رکے کوئی موجِِ استقبال میں رزقِ لمحہ ء حاضر ہوں،…

Read More

رحمان حفیظ ۔۔۔ متن و سنَد سے اور نہ تسطیر سے اْٹھے

متن و سنَد سے اور نہ تسطیر سے اُٹھے جھگڑے تمام حلقۂ تعبیر سےاُٹھے اِک جبر کا فریم چڑاتا ہے میرا مُونہہ پردہ جب اختیار کی تصویر سے سےاُٹھے فکر ِسخن میں یوں بھی ہوا ہے کبھی کہ ہم بیٹھے بٹھائے بارگہِ میر سے سےاُٹھے اس دل میں اک چراغ تھا سو وہ بھی گُل ہوا ممکن ہے اب دھواں مری تحریر سےاُٹھے پلکوں پہ یہ ڈھلکتے ہوئے اشک مت بنا ممکن ہے اتنا بار نہ تصویر سے سےاُٹھے

Read More