ذوالفقار نقوی … وقت

وقت
………
ٹھنی ہے وقت سے میری
برابر سرعت ِ رفتار سے دونوں
چلے ہی جا رہے ہیں اپنی راہوں پر،
وہ مجھ سے بات کرتا ہے،
نہ میں اُس سے کبھی بولا۔
ہوائوں کو لئے سر پر،
مرے شانہ بشانہ ، دوڑتا ہے،
ناچتا، آنکھیں دکھاتا ہے ۔
مسلسل اُس کی نظریں گھورتی ہیں،
ڈھونڈتی ہیں میرے ہاتھوں کو ،
کہ جن کے سائے میں ہےٹمٹماتا سا دیا روشن ،
نہ جانے کون سا فانوس ہے جس پر !
مگر صدیوں سے روشن ہے
رہے گا حشر تک روشن ۔
نہ جانے کیوں اندھیروں کے خدائوں کو نہیں بھاتا !
جلائی ہے کسی کی آنکھ کی پُتلی ،
کسی کے جسم کو جھلسا دیا اِس نے !
غریق ِ اضطراب و لقمہ ء بغض و حسد ہے کچھ ،
مگر کچھ ہیں ، ولے کم ہیں،
کہ جو اِس روشنی میں راہ تکتے ہیں،
جنہیں ہے پاس منزل کا،
جنہیں مل جائے گی منزل
جہیں مل جائے گی منزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment