رحمان حفیظ ۔۔۔ متن و سنَد سے اور نہ تسطیر سے اْٹھے

متن و سنَد سے اور نہ تسطیر سے اُٹھے جھگڑے تمام حلقۂ تعبیر سےاُٹھے اِک جبر کا فریم چڑاتا ہے میرا مُونہہ پردہ جب اختیار کی تصویر سے سےاُٹھے فکر ِسخن میں یوں بھی ہوا ہے کبھی کہ ہم بیٹھے بٹھائے بارگہِ میر سے سےاُٹھے اس دل میں اک چراغ تھا سو وہ بھی گُل ہوا ممکن ہے اب دھواں مری تحریر سےاُٹھے پلکوں پہ یہ ڈھلکتے ہوئے اشک مت بنا ممکن ہے اتنا بار نہ تصویر سے سےاُٹھے

Read More

رحمان حفیظ ۔۔۔ قفس ہے جو بہ شکلِ سائباں رکھا ہوا ہے

قفس ہے جو بہ شکلِ سائباں رکھا ہوا ہے ہمارے سر پہ یہ جو آسماں رکھا ہوا ہے تِری آنکھوں میں کیوں جھلکا نہیں رنگِ تمنّا؟ ترے سینے میں دِل کیا رائیگاں رکھا ہوا ہے! تکبر سے کمر کوزہ ہوئی ہے آسماں کی زمیں کو خاکساری نے جواں رکھا ہوا ہے کسی منظر میں بھی تا دیر رکتا ہی نہیں مَیں یہ چشمہ آنکھ کا مَیں نے رواں رکھا ہوا ہے مِرے الفاظ کو کندن بنا دے گا کسی دن زباں کی تہہ میں جو آتش فشاں رکھا ہوا ہے…

Read More

رحمان حفیظ

خدا کرے کہ مِرا بس چلے عناصر پر میں اور وقت بناؤں تری گھڑی کے لیے

Read More

رحمان حفیظ ۔۔۔۔۔ اْڑاتے آئے ہیں آپ اپنے خواب زار کی خاک

اُڑاتے آئے ہیں آپ اپنے خواب زار کی خاک یہ اور خاک ہے، اک دشتِ بے کنار کی خاک! ڈرا رہے ہو سفر کی صعوبتوں سے ہمیں! تمھارے منہ میں بھی خاک، اور رہ گزار کی خاک! یہ میں نہیں ہوں تو پھرکس کی آمد آمد ہے! خوشی سے ناچتی پھرتی ہے رہگزار کی خاک ہمیں بھی ایک ہی صحرا دیا گیا تھا، مگر اُڑا کے آئے ہیں وحشت میں تین چار کی خاک ہمیں مقیم ہوئے مدتیں ہوئیں، لیکن سَروں سے اب بھی نکلتی ہے رَہ گزار کی خاک…

Read More