محسن اسرار

ہوا میں اُڑتا ہوا رزق پا لیا، لیکن پرندے جراتِ پرواز چھوڑ آئے ہیں

Read More

عید ۔۔۔ سید آلِ احمد

عید ۔۔۔۔ انبساطِ حیات کیا کہیے روحِ احساس مسکرائی ہے مجھ کو خود تو خبر نہیں، لیکن لوگ کہتے ہیں: عید آئی ہے (۱۹۵۶ء) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجموعہ کلام : صریرِ خامہ ناشر: سخن کدہ، احمد نگر، بہاول پور مطبوعہ: گردیزی پریس بہاول پور سنِ اشاعت: ۱۹۶۴ء

Read More

فرحان کبیر ۔۔۔۔۔ مِٹ نہ جائیں سراب دوری کے

مِٹ نہ جائیں سراب دوری کے نقش دیکھا کریں گے پانی کے ہم سروں پر اُٹھائے پھرتے ہیں سب دروبام اُس حویلی کے آخری موڑ تھا شکیبائی ترجماں سو گئے کہانی کے جنبشِ لب کہیں نہیں، لیکن بولتے ہیں مزار مٹی کے ابھی مٹی جبیں سے دھوئی نہ تھی گُل مہکنے لگے کیاری کے بیٹھ کر سوچنے لگا میں بھی میز پر تھے نشان کہنی کے کیا ہَوا کو خبر نہیں، فرحان بجھ رہے ہیں چراغ بستی کے

Read More

رحمان حفیظ ۔۔۔۔۔ اْڑاتے آئے ہیں آپ اپنے خواب زار کی خاک

اُڑاتے آئے ہیں آپ اپنے خواب زار کی خاک یہ اور خاک ہے، اک دشتِ بے کنار کی خاک! ڈرا رہے ہو سفر کی صعوبتوں سے ہمیں! تمھارے منہ میں بھی خاک، اور رہ گزار کی خاک! یہ میں نہیں ہوں تو پھرکس کی آمد آمد ہے! خوشی سے ناچتی پھرتی ہے رہگزار کی خاک ہمیں بھی ایک ہی صحرا دیا گیا تھا، مگر اُڑا کے آئے ہیں وحشت میں تین چار کی خاک ہمیں مقیم ہوئے مدتیں ہوئیں، لیکن سَروں سے اب بھی نکلتی ہے رَہ گزار کی خاک…

Read More

مہلت ۔۔۔۔۔۔۔ نعیم رضا بھٹی

مہلت ۔۔۔۔۔ سرِ مثرگاں ابد آثار امیدوں کا سیلِ خوش نگاہی بہہ رہا ہے اور میں مہلت کی خواہش کے کٹاؤ سے ذرا آگے ارادوں کے حقیقی بانجھ پن کی گونج سنتا ہوں یہیں تم تھے یہیں میں تھا مگر اب راکھ اڑتی ہے تمھارے حسن کی جولاں مری عجلت کی سرشاری کبھی وقفے کی بیزاری بدن کی ساکھ جھڑتی ہے مجھے بوسیدہ فکر و قدر کی شہہ پر دماغوں کی فنا کا مرثیہ لکھنا تھا، لیکن میں نے ہنستی مسکراتی نظم لکھی ہے

Read More

پھول مالا (قوم کی لڑکیوں سے خطاب) ۔۔۔۔۔۔ پنڈت چکبست برج نارائن

پھول مالا (قوم کی لڑکیوں سے خطاب) ………………………… روشِ خام پہ مردوں کی نہ جانا ہرگز داغ تعلیم میں اپنی نہ لگانا ہرگز نام رکھا ہے نمایش کا ترقی و رِفارم تم اِس انداز کے دھوکے میں نہ آنا ہرگز رنگ ہے جن میں مگر بوئے وفا کچھ بھی نہیں ایسے پھولوں سے نہ گھر اپنا سجانا ہرگز نقل یورپ کی مناسب ہے مگر یاد رہے خاک میں غیرتِ قومی نہ ملانا ہرگز خود جو کرتے ہیں زمانے کی روش کو بدنام ساتھ دیتا نہیں ایسوں کا زمانا ہرگز خود…

Read More

وقت سے پہلے ۔۔۔۔۔ ندا فاضلی

وقت سے پہلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یوں تو ہر رشتہ کا انجام یہی ہوتا ہے پھول کھلتا ہے مہکتا ہے بکھر جاتا ہے تم سے ویسے تو نہیں کوئی شکایت لیکن شاخ ہو سبز تو حساس فضا ہوتی ہے ہر کلی زخم کی صورت ہی جدا ہوتی ہے تم نے بیکار ہی موسم کو ستایا، ورنہ پھول جب کھل کے بہک جاتا ہے خود بخود شاخ سے گر جاتا ہے

Read More

خرم آفاق ۔۔۔۔۔۔ ہمیں بھی کام بہت ہے خزانے سے اُس کے

ہمیں بھی کام بہت ہے خزانے سے اُس کے ذرا یہ لوگ تو اٹھیں سرہانے سے اُس کے یہی نہ ہو کہ توجہ ہٹا لے وہ اپنی زیادہ دیر نہ بچنا نشانے سے اُس کے وہ مجھ سے تازہ محبت پہ راضی ہے، لیکن اصول اب بھی وہی ہیں پرانے سے اُس کے وہ تیر اتنی رعایت کبھی نہیں دیتا یہ زخم لگتا نہیں ہے گھرانے سے اُس کے وہ چڑھ رہا تھا جدائی کی سیڑھیاں آفاق سرک رہا تھا مرا ہاتھ شانے سے اُس کے

Read More

ایمبو لینس کے اندر سے! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عنبرین صلاح الدین

ایمبو لینس کے اندر سے! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صدیوں جیسے پل کانوں میں سر سر کرتا ہے وقت کا مایہ جل گُونجے ہر آواز ایک چنگھاڑ طواف کرے اور کھولے سارے راز پیچھے رہ گیا گھر بیٹھی ہوں میں سانسیں روکے گود میں تیرا سر! رستے ہٹتے جائیں پہییے چیخیں گرم سڑک پر سگنل کھُلتے جائیں کتنی دُور نگر سو سو بار اِک پل میں سوچوں کتنا اور سفر! اندر سب گُم صُم کھڑکی سے باہر کی دُنیا اپنی دُھن میں گُم لفظ نہیں بن پائیں ہاتھوں پیروں میں بے چینی سانسیں…

Read More

سیّدظہیر کاظمی ۔۔۔۔۔۔ حسبِ حال اپنا زائچہ ہی نہیں

(نذرِ لیاقت علی عاصم) حسبِ حال اپنا زائچہ ہی نہیں گھر بنانے کا حوصلہ ہی نہیں جس کی خاطر سفر تمام کیا مجھ کو منزل پہ وہ ملا ہی نہیں میری آنکھوں میں خواب ہیں تیرے ورنہ جینے کا حوصلہ ہی نہیں شہر خوابوں کا بس گیا،لیکن اک مسافر پلٹ سکا ہی نہیں تو نے پوچھا ہے حال رستوں کا میری آنکھوں میں کچھ بچا ہی نہیں مجھ سے بچھڑا بڑی سہولت سے جیسے وہ مجھ کو جانتا ہی نہیں آ تجھے چھوڑ آئوں منزل تک پھر نہ کہنا: مجھے…

Read More