ڈاکٹر کبیر اطہر

ترے بغیر گزاری ہے زندگی مَیں نے تو اِس ستم کی تلافی بھی ماہ و سال میں رکھ

Read More

فرحان کبیر ۔۔۔۔۔ مِٹ نہ جائیں سراب دوری کے

مِٹ نہ جائیں سراب دوری کے نقش دیکھا کریں گے پانی کے ہم سروں پر اُٹھائے پھرتے ہیں سب دروبام اُس حویلی کے آخری موڑ تھا شکیبائی ترجماں سو گئے کہانی کے جنبشِ لب کہیں نہیں، لیکن بولتے ہیں مزار مٹی کے ابھی مٹی جبیں سے دھوئی نہ تھی گُل مہکنے لگے کیاری کے بیٹھ کر سوچنے لگا میں بھی میز پر تھے نشان کہنی کے کیا ہَوا کو خبر نہیں، فرحان بجھ رہے ہیں چراغ بستی کے

Read More

فرحان کبیر ۔۔۔۔۔۔ دل کو پژمردہ و بیمار نہیں چاہتے ہم

دل کو پژمردہ و بیمار نہیں چاہتے ہم مختصر کہتے ہیں، بسیار نہیں چاہتے ہم کتنے دروازے کھلیں مسکنِ جاں تک آتے اور اس کو بھی ہَوادار نہیں چاہتے ہم! مُوند لیں کس طرح آنکھوں کو، سمندر میں ہیں اور جانا ابھی اُس پار نہیں چاہتے ہم بُت بنا لیتے ہیں، بارش کا، کبھی بادل کا اُس کی رحمت ہو نمودار، نہیں چاہتے ہم! گُونج اُٹھنا تو الگ بات ہے، فرحان، یہاں اپنے ہونے کا بھی اقرار نہیں چاہتے ہم

Read More

فرحان کبیر ۔۔۔۔۔۔ تیری آنکھوں میں اُسے دیکھ لیا کرتے ہیں

تیری آنکھوں میں اُسے دیکھ لیا کرتے ہیں اِس طرح خواب کو تعبیر کیا کرتے ہیں کل کوئی اور نکل آئے گا سورج کی طرح اِس تسلّی پہ بہت لوگ جیا کرتے ہیں یہ وہی جا ہے جہاں آ کے زمیں ختم ہوئی! لوگ، کچھ دیر، یہاں بیٹھ لیا کرتے ہیں میں زمیں پر اُتر آئوں تو زمانے جاگیں زلزلے بھی مرے ہمراہ چلا کرتے ہیں چاہے فرضی سہی، فرحان، وہ سارے کردار اِس سمندر کی حکایت میں جیا کرتے ہیں

Read More