قمر رضا شہزاد

بھڑک اُٹھا تھا میں اپنے وجود میں اِک دن دیے کی لَو پہ لبوں کے نشان چھوڑتے وقت

Read More

قمر رضا شہزاد

مَیں کس طلب میں ہوا ہوں زمین سے بے دخل فلک کے پار مجھے کون سی صدا لائی

Read More

قمر رضا شہزاد

وہیں دھرے ہیں جنازے قطار میں شہزاد جہاں میں روز دیے سے دیا جلاتا تھا

Read More

قمر رضا شہزاد

صداے غیب سمجھ اور بے ٹھکانہ ہو سبھی کو روتے ہوے چھوڑ کر روانہ ہو

Read More

وحشت کلکتوی ۔۔۔ اے اہلِ وفا! خاک بنے کام تمھارا

اے اہلِ وفا! خاک بنے کام تمھارا آغاز بتا دیتا ہے انجام تمھارا جاتے ہو کہاں عشق کے بے داد کشو! تم اُس انجمنِ ناز میں کیا کام تمھارا اے دیدہ و دل! کچھ تو کرو ضبط و تحمل لبریز مئے شوق سے ہے جام تمھارا اے کاش، مرے قتل ہی کا مژدہ وہ ہوتا آتا کسی صورت سے تو پیغام تمھارا وحشت! ہو مبارک تمھیں بدمستی و رندی جز عشقِ بتاں اور ہے کیا کام تمھارا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجموعہ کلام: دیوانِ وحشت

Read More

قمر رضا شہزاد ۔۔۔ میں مرنے والا نہیں!

میں مرنے والا نہیں! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں زمانوں سے سب دیکھتا آیا ہوں جنگ اور جنگ سے ہونے والی یہ بربادیاں قحط کی زد میں آئی ہوئی بستیاں زلزلوں سے زمیں بوس ہوتے مکاں کتنے سیلاب اور کتنے آتش فشاں میں نے جھیلی ہیں سینے پہ سب سختیاں میں اگر خاک ہوبھی گیا ۔۔۔ کیا ہوا پھر اسی خاک سے ایک دن یونہی ہنستا ہوا اک نئے روپ میں کھل اُٹھا میں بہادر ہوں اور اب بھی لڑتے ہوئے اس نئی جنگ میں دیکھ لینا اگر تیرے ہاتھوں سے مارا گیا…

Read More

مکان عشق نے ایسی جگہ بنا لیا تھا ۔۔۔ حسن عباس رضا

مکان، عشق نے ایسی جگہ بنا لیا تھا کہ مجھ کو گھر سے نکلتے ہی اُس نے آ لیا تھا میں جانتا تھا کہ ضدی ہے پرلے درجے کا سو، ہار مان کے میں نے اسے منا لیا تھا یہ میرا دل ہے مگر میری مانتا ہی نہیں گذشتہ رات اسے میں نے آزما لیا تھا خبر ملی مجھے جیسے ہی اُس کے آنے کی نگاہ در پہ رکھی، اور دیا جلا لیا تھا جو دل کا حال تھا، ہم نے بڑے سلیقے سے غزل بہانہ کیا اور اُسے سنا…

Read More

احتمال ۔۔۔۔۔۔ نعیم رضا بھٹی

احتمال ۔۔۔۔ برہنہ خاک کے سارے مناظر فلک کی سرپرستی میں جہانِ دل نشیں مہکا رہے ہیں ہمیں بہلا رہے ہیں مگر احساس غالب ہے کسی خلجان کا پرتو تشدد خیز سی تہذیب کے مانند چہار اطراف پھیلے خوں چکاں منظر ہماری سربریدہ لاش کی جانب کسی کرگس کی  صورت بڑھ رہے ہیں ہمارے خون کو خوراک میں تبدیل ہونا ہے

Read More

مہلت ۔۔۔۔۔۔۔ نعیم رضا بھٹی

مہلت ۔۔۔۔۔ سرِ مثرگاں ابد آثار امیدوں کا سیلِ خوش نگاہی بہہ رہا ہے اور میں مہلت کی خواہش کے کٹاؤ سے ذرا آگے ارادوں کے حقیقی بانجھ پن کی گونج سنتا ہوں یہیں تم تھے یہیں میں تھا مگر اب راکھ اڑتی ہے تمھارے حسن کی جولاں مری عجلت کی سرشاری کبھی وقفے کی بیزاری بدن کی ساکھ جھڑتی ہے مجھے بوسیدہ فکر و قدر کی شہہ پر دماغوں کی فنا کا مرثیہ لکھنا تھا، لیکن میں نے ہنستی مسکراتی نظم لکھی ہے

Read More

ابہام ۔۔۔۔۔ نعیم رضا بھٹی

ابہام ۔۔۔۔۔ جہاں پسماندگاں تفریح سے تسکین پاتے ہوں جہاں بیدار آنکھوں سے سیاہی پھوٹ بہتی ہو وہاں پرکھوں کی دانائی ہرے شبدوں میں ڈھل کر لو نہیں دیتی اگر تم ٹاٹ کے پردے میں ریشم کو رفو کرنے میں ماہر ہو تو میری روح کے بخیوں کو سینے میں تردد کر نہیں سکتے مری نظروں سے اپنی ماتمی آنکھیں چراؤ گے تو میں لفظوں کے نشتر تم پہ پھینکوں گا اگر تم لا کی موجودی میں گھنگھرو باندھنے کو عشق کہتے ہو تو رقاصہ کے قدموں میں خدا کا…

Read More