قمر رضا شہزاد ۔۔۔ کسی کا غصہ کسی اور پر نکالتا ہوں

کسی کا غصہ کسی اور پر نکالتا ہوں میں اپنا سارا کیا دوسروں پہ ڈالتا ہوں پہنچ ہی جائیں گے آخر کبھی خدا کے حضور یہ میں جو اشک فلک کی طرف اچھالتا ہوں جب اس کی سمت سے آتے ہیں قید کے احکام مرا کمال میں اس وقت پر نکالتا ہوں وگرنہ کب کے یہ مسمار ہو چکے ہوتے یہ میں ہوں جو ترے کون ومکاں سنبھالتا ہوں یہ میرے لفظ نہیں ہیں بھڑکتے شعلے ہیں میں اپنی آگ سے ماحول کو اجالتا ہوں مرا وجود اگر زہر ہے…

Read More

قمر رضا شہزاد ۔۔۔ کسی کی پھینکی کسی شخص کی اٹھائی ہوئی

کسی کی پھینکی کسی شخص کی اٹھائی ہوئی یہ کائنات کہ ہڈی کوئی چبائی ہوئی کسی کا نام مرے ہونٹ پر لرزتا ہوا کسی کی شکل مرے حافظے میں آئی ہوئی یہ زندگی کوئی لپٹا ہوا گلے کے ساتھ یہ موت انگلی کسی ہاتھ سے چھڑائی ہوئی بتارہی ہے میں کس شان سے محاذ پہ ہوں مرے لہو میں یہ پگڑی مری نہائی ہوئی میں اپنے بعد اسی طرح یاد آؤں گا کہ جیسے کوئی کہانی سنی سنائی ہوئی تمام لوگ نکل جائیں میرے حجرے سے میں تھک چکا ہوں…

Read More

قمر رضا شہزاد ۔۔۔ زنداں میں روشنی کا وسیلہ بناتا  میں

زنداں میں روشنی کا وسیلہ بناتا  میں مٹی کرید کر کوئی رستہ بناتا میں کرتو لئے ہیں جمع یہاں ڈھیر سارے خواب اب اس سے بڑھ کے کتنا خزانہ  بناتا میں اینٹیں اٹھا اٹھا کے گنوائے ہیں اپنے ہاتھ بہتر تھا ان کو جوڑ کے کاسہ بناتا میں اب خود ہی سوچتا ہوں کہ کیکر کی شاخ سے یونہی قلم بنایا ہے نیزہ بناتا میں یوں تو دکھائی دیتے ہیں یہ سانس لیتے لوگ ان میں کسی کو واقعی ز ندہ بناتا میں

Read More

قمر رضا شہزاد ۔۔۔ شہد و شراب و شیرسے کٹیا سجا بھی دی

شہد و شراب و شیرسے کٹیا سجا بھی دی درویش نے زمین پہ جنت بنا بھی دی یہ کون عکس ہے مجھے اس کی خبر نہیں میں نے تو ایک شکل کبھی کی بھلا بھی دی اب اور مجھ سے چاہیے کیا اے مرے عزیز! سر پہ بھی ہاتھ رکھ دیا، دل سے دعا بھی دی میں کیا کروں کہ پھر بھی سفر ہو نہیں رہا رستے سے کائنات خدا نے ہٹا بھی دی آخر یہی کہ میں نے اسی چشمِ خشک میں دریا بھی خلق کر دیا نیکی بہا…

Read More

حمزہ یعقوب … "خامشی” کی قرات

"خامشی” کی قرات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قمر رضا شہزاد کا چوتھا شعری مجموعہ "خامشی” کوئی ایک سال سے میری الماری میں موجود تھا۔ یونیورسٹی کے معاملات، وبائی صورتحال اور روایتی نکما پن آڑے آتا رہا جس کے سبب یہ کتاب مری توجہ سے دور رہی۔ کورونا کے بعد لاہور آیا تو "خامشی” کی قرات شروع کی جس نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا۔ "خامشی” میں شامل غزلیات مضامین کے ساتھ ساتھ بیانیے اور تلازمے کے تناظر میں بھی جدید ہیں۔ "خامشی” میں ابہام کی جدید تعریف اور الفاظ کو عمومی معنوں…

Read More

قمر رضا شہزاد

بھڑک اُٹھا تھا میں اپنے وجود میں اِک دن دیے کی لَو پہ لبوں کے نشان چھوڑتے وقت

Read More

قمر رضا شہزاد

مَیں کس طلب میں ہوا ہوں زمین سے بے دخل فلک کے پار مجھے کون سی صدا لائی

Read More

قمر رضا شہزاد

وہیں دھرے ہیں جنازے قطار میں شہزاد جہاں میں روز دیے سے دیا جلاتا تھا

Read More