لا موجود ۔۔۔۔۔۔ نعیم رضا بھٹی

لا موجود ۔۔۔۔۔۔۔ شکستہ گھر ہے دہکتے آنگن میں سن رسیدہ شجر کے پتے بکھر چکے ہیں پرندگاں جو یہاں چہکنے میں محو رہتے تھے خامشی کی سلوں کے نیچے دبے پڑے ہیں سلیں جو گھر کی ادھڑتی چھت سے کلام کرتیں تو روشنی کو قرار ملتا قرار جس نے بجھے چراغوں کی حیرتوں کو ثبات بخشا افق سے آگے ہمارے حیلوں فریب دیتے ہوئے بہانوں کی قدر کم تھی سو ہم بقا سے فنا کی جانب پلٹ رہے ہیں خمیرِ آدم ہے استعارہ شکستگی کا خلا سے باہر ہمارے…

Read More

غالب ۔۔۔۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخیء تحریر کا

نقش فریادی ہے کس کی شوخیء تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا کاوکاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شِیر کا جذبہء بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے سینہء شمشیر سے باہر ہے، دم شمشیر کا آگہی، دامِ شنیدن جس قدر، چاہے بچھائے مدعا عنقا ہے، اپنے عالمِ تقریر کا شوخیء نیرنگ، صیدِ وحشتِ طائوس ہے دام، سبزے میں ہے ، پروازِ چمن تسخیر کا لذتِ ایجادِ ناز، افسونِ عرضِ ذوقِ قتل نعل، آتش میں ہے تیغِ یار سے، نخچیر کا…

Read More