محمد علوی … دھوپ نے گزارش کی

دھوپ نے گزارش کی ایک بوند بارش کی لو گلے پڑے کانٹے کیوں گلوں کی خواہش کی جگمگا اٹھے تارے بات تھی نمائش کی اک پتنگا اجرت تھی چھپکلی کی جنبش کی ہم توقع رکھتے ہیں اور وہ بھی بخشش کی لطف آ گیا علوی واہ خوب کوشش کی

Read More

رضوان احمد ۔۔۔ بانی ( نئی غزل کی منفرد آواز)

یہ کہنا تو شاید قبل از وقت ہو گا کہ بانی غزل میں ایک نئی روایت کے بانی تھے، مگر یہ ضرور ہے کہ انہوں نے اردو غزل کی کلاسیکی روایات سے انحراف کیا تھا۔ بانی کی غزل خود ہی اس حقیقت پر دال ہے: محراب نہ قندیل نہ اسرار نہ تمثیل کہہ اے ورقِ تیرہ، کہاں ہے تری تفصیل آساں ہوئے سب مرحلے ایک موجہٴ پاسے برسوں کی فضا ایک صدا سے ہوئی تبدیل مرے بدن میں پگھلتا ہوا سا کچھ تو ہے اک اور ذات میں ڈھلتا ہوا…

Read More

اقتدار جاوید … کیڑی کی ماں

کیڑی کی ماں ۔۔۔۔۔۔۔۔ چھٹی کی گھنٹی بجی لڑکے اسکول سے شہد سے میٹھے اپنے گھروں کی طرف ایسے مڑتے نظر آئے تھے شہد کی مکھی جیسے پلٹتی ہے چھتے کی جانب مسرت کا سیلاب گلیوں میں، کونوں میں، رونق بھرے دونوں بازاروں میں بہہ رہا تھا شریروں کا مجمع تھا یا نرم گڈوں کی ڈوریں کٹی تھیں تھا ’’بو کاٹا‘‘ کا شور گڈے دکانوں کے چھجوں، درختوں کے ڈالوں، منڈیروں کے کونوں پہ ہنستے ہوئے گر رہے تھے زمانے کا میدان ڈوبا ہوا تھا کئی رنگوں میں! نانبائی کے…

Read More

اقتدار جاوید ۔۔۔ دبلی پتلی

دبلی پتلی ۔۔۔۔۔۔۔ شگن بھری خواب سے جڑی ہے زمانہ رفتار سے بندھا ہے (زمانے کو آپ زید کہہ لیں کہ بکر جانیں) شگن بھری کا وہ خواب، وہ آفتاب روشن ہے جو افق کے محیط کو روندتا نکلتا ہے شب کے اسفنج سے سیاہی نچوڑتا ہے وہ نیند اور نیند کے اندھیروں کی کوکھ کو توڑتا ہے وہ وقت کی یخ  آلود  جھیل کو چھیدتا ہے تو ثانیے ابلتے ہیں جیسے…جیسے… شگن بھری کی بخار والی سفید آنکھوں سے جیسے موتی ٹپک رہے ہوں زمانہ رفتار سے بندھا ہے…

Read More

اشارے ۔۔۔ منیر نیازی

 اشارے ۔۔۔۔۔۔ شہر کے مکانوں کے سرد سائبانوں کے دل رُبا، تھکے سائے خواہشوں سے گھبرائے رہرووں سے کہتے ہیں رات کتنی ویراں ہے موت بال افشاں ہے اس گھنے اندھیرے میں خواہشوں کے ڈیرے میں دل کے چور بستے ہیں ان کے پاس جانے کے لاکھ چور رستے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجموعہ کلام: تیز ہوا اور تنہا پھول

Read More

اِسی دن ۔۔۔ غلام محمد قاصر

اِسی دن ۔۔۔۔۔ اِسی دن آسمانی خواب کی ہم نے ہری تعبیر پہنی تھی ہمارے ہاتھ میں نصرت کا پرچم اور امکانات کے پھولوں کی ٹہنی تھی ہم اس کی خواب گوں جھنکار سے آگے نکل آئے کئی نسلوں نے جو زنجیر پہنی تھی سنہرے لفظ دیواروں پہ کندہ ہوتے جاتے تھے اجالوں کی طرف چُپکے سے وہ ہم کو بلاتے تھے سبھی تسلیم کرتے ہیں وہی بنتا ہے سچائی کو جب تجسیم کرتے ہیں ہم اپنے رہنما کی اس طرح تعظیم کرتے ہیں کہ اس کے خواب کو تقسیم…

Read More

احتمال ۔۔۔۔۔۔ نعیم رضا بھٹی

احتمال ۔۔۔۔ برہنہ خاک کے سارے مناظر فلک کی سرپرستی میں جہانِ دل نشیں مہکا رہے ہیں ہمیں بہلا رہے ہیں مگر احساس غالب ہے کسی خلجان کا پرتو تشدد خیز سی تہذیب کے مانند چہار اطراف پھیلے خوں چکاں منظر ہماری سربریدہ لاش کی جانب کسی کرگس کی  صورت بڑھ رہے ہیں ہمارے خون کو خوراک میں تبدیل ہونا ہے

Read More

جاں آشوب ۔۔۔ خالد علیم

جاں آشوب ۔۔۔۔۔۔۔ کیا نکلا سنگِ چقماق کے دَور سے یہ نادان پتھر بن کر رہ گیا پورا، مٹی کا انسان جذبے پتھر، سوچیں پتھر، آنکھیں بھی پتھر تن بھی پتھر، من بھی پتھر، پتھر ہے وجدان اپنے پتھر سینے میں ہے پتھر کی دھڑکن اپنے پتھر ہونٹوں پر ہے پتھر کی مسکان آج بھی ہم پتھر کی پوجا پاٹ میں بیٹھے ہیں اپنے ہاتھ سے آپ تراش کے پتھر کا بھگوان ۔۔۔۔ ہم نے شہر بنائے، ہم نے گھر آباد کیے ہم نے انسانوں کو دی تہذیبوں کی پہچان…

Read More

سبب ۔۔۔۔۔۔ فہمیدہ ریاض

سبب ۔۔۔۔ آ گئی شامِ غم             آ گئی پھر بتانے سے کیا فائدہ ہو گیا دل کا خوں             ہو گیا             سچ ہے یہ پھر فسانہ بنانے سے کیا فائدہ کھو گئے ہم سفر سب گئے اپنے گھر راہ چلتوں کو اَب راہ میں روک کر یہ کہانی سنانے سے کیا فائدہ مر گئی کوئی شے دفن کر کے اُسے چل پڑی راہ پر صرف میری تھی یہ جیسے ہو یہ نہایت اہم…

Read More

جب صرف اپنی بابت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجید امجد

جب صرف اپنی بابت ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب صرف اپنی بابت اپنے خیالوں کا اک دیا مرے من میں جلتا رہ جاتا ہے جب باقی دنیا والوں کے دلوں میں جو جو اندیشے ہیں اُن کے الاؤ مری نظروںمیں بجھ جاتے ہیں، تب تو یوں لگتا ہے جیسے کچھ دیواریں ہیں جو میرے چاروں جانب اٹھ آئی ہیں، مَیں جن میں زندہ چن دیا گیا ہوں، اور پھر دوسرے لمحے اس دیوار سے ٹیک لگا کر، اپنے آپ کو بھول کر، میں نے اپنی روح کے دریاؤں کو جب بھی سامنے…

Read More