ہزاروں لاکھوں دلی میں مکاں ہیں مگر پہچاننے والے کہاں ہیں کہیں پر سلسلہ ہے کوٹھیوں کا کہیں گرتے کھنڈر ہیں، نالیاں ہیں کہیں ہنستی چمکتی صورتیں ہیں کہیں مٹتی ہوئی پرچھائیاں ہیں کہیں آواز کے پردے پڑے ہیں کہیں چپ میں کئی سرگوشیاں ہیں قطب صاحب کھڑے ہیں سر جھکائے قلعے پر گدھ بہت ہی شادماں ہیں ارے یہ کون سی سڑکیں ہیں بھائی یہاں تو لڑکیاں ہی لڑکیاں ہیں لکھا ملتا ہے دیواروں پہ اب بھی تو کیا اب بھی وہی بیماریاں ہیں حوالوں پر حوالے دے رہے…
Read MoreTag: muhammad alvi’s poetry
محمد علوی ۔۔۔ کیا کہتے کیا جی میں تھا
کیا کہتے کیا جی میں تھا شور بہت بستی میں تھا پہلی بوند گری ٹپ سے پھر سب کچھ پانی میں تھا چھتیں گریں گھر بیٹھ گئے زور ایسا آندھی میں تھا موجیں ساحل پھاند گئیں دریا گلی گلی میں تھا میری لاش نہیں ہے یہ کیا اتنا بھاری میں تھا آخر طوفاں گزر گیا دیکھا تو باقی میں تھا چھوڑ گیا مجھ کو علوی شاید وہ جلدی میں تھا
Read Moreمحمد علوی ۔۔۔ تیسری آنکھ کھلے گی تو دکھائی دے گا
تیسری آنکھ کھلے گی تو دکھائی دے گا اور کے دن مرا ہم زاد جدائی دے گا وہ نہ آئے گا مگر دل یہ کہے جاتا ہے اس کے آنے کا ابھی شور سنائی دے گا دل کا آئینہ ہوا جاتا ہے دھندلا دھندلا کب ترا عکس اسے اپنی صفائی دے گا خوش تھا میں چہرے پہ آنکھوں کو سجا کر لیکن کیا خبر تھی مجھے کچھ بھی نہ سجھائی دے گا اپنے ہی خون میں آلودہ کیے بیٹھا ہوں کون اس ہاتھ میں اب دستِ حنائی دے گا موت…
Read Moreمحمد علوی
کتنی اچھی لڑکی ہے! برسوں بھول نہ پائیں گے
Read Moreمحمد علوی ۔۔۔ کل رات سونی چھت پہ عجب سانحہ ہوا
کل رات سونی چھت پہ عجب سانحہ ہوا جانے دو یار کون بتائے کہ کیا ہوا نظروں سے ناپتا ہے سمندر کی وسعتیں ساحل پہ اک شخص اکیلا کھڑا ہوا لمبی سڑک پہ دور تلک کوئی بھی نہ تھا پلکیں جھپک رہا تھا دریچہ کھلا ہوا مانا کہ تو ذہین بھی ہے خوب رو بھی ہے تجھ سا نہ میں ہوا تو بھلا کیا برا ہوا دن ڈھل رہا تھا جب اسے دفنا کے آئے تھے سورج بھی تھا ملول زمیں پر جھکا ہوا کیا ظلم ہے کہ شہر میں…
Read Moreمحمد علوی … دھوپ نے گزارش کی
دھوپ نے گزارش کی ایک بوند بارش کی لو گلے پڑے کانٹے کیوں گلوں کی خواہش کی جگمگا اٹھے تارے بات تھی نمائش کی اک پتنگا اجرت تھی چھپکلی کی جنبش کی ہم توقع رکھتے ہیں اور وہ بھی بخشش کی لطف آ گیا علوی واہ خوب کوشش کی
Read Moreدِلی جو ایک شہر تھا ۔۔۔ محمد علوی
دِلّی جو ایک شہر تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جامع مسجد بُلاتی رہی میں نہ پہنچا تو سارا قلعہ مارے غصے کے لال ہو گیا نئی دِلی کی سڑکوں پہ پھرتی ہوئی لڑکیاں مجھ سے ملنے کی خواہش لیے، سو کو بالوں سے آزاد کر کے ننگے بدن، ننگے سر سو گئیں اور کیا کیا ہوا، یاد آتا نہیں! ہاں مگر یاد ہے، اب بھی اچھی طرح یاد ہے، چاندنی چوک میں رات کو دو بجے چومنا ایک کو ایک کا اک حماقت ۔۔۔۔ مگر پھر بھی کتنی حسیں! رات آئے تو پاتا…
Read More