فہمیدہ ریاض ۔۔۔ انتساب ۔۔۔ ۲

انتساب ۔۔۔ ۲ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید کہ قول خاک سے ہارا قلم مرا تا عمر صرف حرفِ تمنا رقم کیا جی کو ضد کہ آج تو خوں ناب روئیے یہ قطرۂ سر شک سے بوٹے بنا گیا پت جھڑ میں ضد رہی کہ لکھے نو بہار رنگ تقدیر تو سیاہ تھی تحریر کی مری یہ اُس کا حوصلہ ہے کہ پھوٹے ہزار رنگ کیا بے قرار رنگ!

Read More

فہمیدہ ریاض… سچ

سچ ۔۔۔ سچائی، الفت، خودداری مٹی کے کمزور کھلونے پل بھر میں ٹوٹ جاتے ہیں پھر بھی دنیا کتنی حسیں ہے ایسی مقدس ۔۔۔ جیسے مریم ایسی اجلی ۔۔۔ جیسے جھوٹ

Read More

فہمیدہ ریاض … کاغذ! تیرا رنگ فق کیوں ہو گیا؟

کاغذ! تیرا رنگ فق کیوں ہو گیا؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کاغذ! تیرا رنگ فق کیوں ہو گیا؟ ” شاعر! تیرے تیور دیکھ کر” کاغذ! تیرے رُخسار پر یہ داغ کیسے ہیں "شاعر! میں تیرے آنسو پی نہ سکا” کاغذ! میں تجھ سے سچ کہوں "شاعر! میرا دل پھٹ جائے گا”

Read More

انتساب ۔۔۔۔ فہمیدہ ریاض

انتساب ۔۔۔۔۔۔ اپنے دل کا کھنکتا سکہ جو تم ہر صبح سورج کے ساتھ ہوا میں اُچھالتے ہو اگر خوف کے رُخ پر گرے تو یہ مت بُھلانا کہ شجاعت اسی کے دوسرے رُخ پر کندہ ہے سو یہ ایک داؤ بھی اسی بازی کے نام جو ہم نے بدی ہے زندگی سے۔۔۔۔۔

Read More

فہمیدہ ریاض ۔۔۔ کبھی دھنک سی اترتی تھی ان نگاہوں میں

کبھی دھنک سی اترتی تھی ان نگاہوں میں وہ شوخ رنگ بھی دھیمے پڑے ہواؤں میں میں تیز گام چلی جا رہی تھی اُس کی سمت کشش عجیب تھی اُس دشت کی صداؤں میں وہ اِک صدا جو فریبِ صدا سے بھی کم ہے نہ ڈوب جائے کہیں تُند رو ہواؤں میں سکوتِ شام ہے اور مَیں ہوں گوش بر آواز کہ ایک وعدے کا افسوں سا ہے فضاؤں میں مری طرح یونہی گُم کردہ راہ چھوڑے گی تم اپنی بانہہ نہ دینا ہوا کی بانہوں میں نقوش پاؤ ں…

Read More

فہمیدہ ریاض

پھر ہم ہیں، نیم شب ہے، اندیشہء عبث ہے وہ واہمہ کہ جس سے تیرا یقین آیا

Read More

وہ لڑکی ۔۔۔۔۔ فہمیدہ ریاض

وہ لڑکی ۔۔۔۔۔۔۔ جن پر میرا دل دھڑکا تھا، وہ سب باتیں دہراتے ہو وہ جانے کیسی لڑکی ہے تم اب جس کے گھر جاتے ہو مجھ سے کہتے تھے، بن کاجل اچھی لگتی ہیں مری آنکھیں تم اب جس کے گھر جاتے ہو، کیسی ہوں گی اُس کی آنکھیں تنہائی میں چپکے چپکے نازک سپنے بنتی ہو گی تم اب جس کے گھر جاتے ہو، کیا وہ مجھ سے اچھی ہو گی؟ مجھ کو تم سے کیا دلچسپی، میں اک اک کو سمجھاتی ہوں یاد بہت آتے ہو جب…

Read More

سبب ۔۔۔۔۔۔ فہمیدہ ریاض

سبب ۔۔۔۔ آ گئی شامِ غم             آ گئی پھر بتانے سے کیا فائدہ ہو گیا دل کا خوں             ہو گیا             سچ ہے یہ پھر فسانہ بنانے سے کیا فائدہ کھو گئے ہم سفر سب گئے اپنے گھر راہ چلتوں کو اَب راہ میں روک کر یہ کہانی سنانے سے کیا فائدہ مر گئی کوئی شے دفن کر کے اُسے چل پڑی راہ پر صرف میری تھی یہ جیسے ہو یہ نہایت اہم…

Read More