اقتدار جاوید … کیڑی کی ماں

کیڑی کی ماں ۔۔۔۔۔۔۔۔ چھٹی کی گھنٹی بجی لڑکے اسکول سے شہد سے میٹھے اپنے گھروں کی طرف ایسے مڑتے نظر آئے تھے شہد کی مکھی جیسے پلٹتی ہے چھتے کی جانب مسرت کا سیلاب گلیوں میں، کونوں میں، رونق بھرے دونوں بازاروں میں بہہ رہا تھا شریروں کا مجمع تھا یا نرم گڈوں کی ڈوریں کٹی تھیں تھا ’’بو کاٹا‘‘ کا شور گڈے دکانوں کے چھجوں، درختوں کے ڈالوں، منڈیروں کے کونوں پہ ہنستے ہوئے گر رہے تھے زمانے کا میدان ڈوبا ہوا تھا کئی رنگوں میں! نانبائی کے…

Read More

اقتدار جاوید ۔۔۔ دبلی پتلی

دبلی پتلی ۔۔۔۔۔۔۔ شگن بھری خواب سے جڑی ہے زمانہ رفتار سے بندھا ہے (زمانے کو آپ زید کہہ لیں کہ بکر جانیں) شگن بھری کا وہ خواب، وہ آفتاب روشن ہے جو افق کے محیط کو روندتا نکلتا ہے شب کے اسفنج سے سیاہی نچوڑتا ہے وہ نیند اور نیند کے اندھیروں کی کوکھ کو توڑتا ہے وہ وقت کی یخ  آلود  جھیل کو چھیدتا ہے تو ثانیے ابلتے ہیں جیسے…جیسے… شگن بھری کی بخار والی سفید آنکھوں سے جیسے موتی ٹپک رہے ہوں زمانہ رفتار سے بندھا ہے…

Read More

سعدیہ بشیر ۔۔۔ الجھن

الجھ سی گئی ہوں نیا سال ہے تو پرانے کا کیا ہو !!!! مرے پاس ایسے بہت سال ہیں۔۔۔، کہاں پر سجاؤ ں ؟ کسی شیلف پر یہ سماتے نہیں۔۔۔ ، نہ یہ ٹوٹ جائیں یہ گٹھڑی میں بھی باندھے جاتے نہیں ، مرتب رہیں ۔۔۔ یہ ملبوس ہیں کیا ؟ کہ دے دوں کسی کو جو مجھ پر ہے گزرا ، وہ میرا رہے گا سمجھ سے ہے باہر کہاں رکھ کے آؤں ؟ جہاں پر گذشتہ کئی سال رکھے وہ بجھنے لگے ہیں انھیں سانس لینے کی حاجت…

Read More

رخشندہ نوید ۔۔۔ نظم

ایک اک کرکے اوجھل ہو گئیں آنکھ سے کہاں،کدھر چڑیاں  ۔۔۔  بدلیاں  ۔۔۔ خوشیاں ۔۔۔ بیٹیاں چڑیاں! آکر بیٹھیں آنگن دانہ دانہ کھایا گھنا درخت کا سایہ اُڑ کر چلی گئیں پھر جانے کس جانب کِس اور میں نے چاہا اُن کو جیسے کوئی رنگیں مور ایک اک کرکے اوجھل ہو گئیں آنکھ سے کہاں کدھر بدلیاں! بدلیاں اُتریں اونچے اونچے پربت ناپ کے نیچے بھاگے بچّے بھاگے خوابوں کے انبوہ کے پیچھے صحن میں بکھرے شیشے لاکھوں ان پر چلے نہ کوئی بدلی ہوتے تن من اندر باہر جلے…

Read More

خالد علیم ۔۔۔ میرا جی کے نام

میرا جی کے نام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا جی تم میرا جی ہو میراجی ہم جانتے ہیں تم صرف ثنااللہ تھے پہلے آخر اک دن میراسن کے عشق میں میرا جی کہلائے اور جب میرا جی کہلائے تم نے ثنا اللہ کے دل کی دھڑکن کو اپنے اندر مار دیا جانتے ہیں ہم تم اچھی نظمیں لکھتے تھے منٹو کے افسانوں جیسی کرشن کے سچے کرداروں میں ڈوبی نظمیں آدھے دھڑ کے  انسانوں  پر پوری نظمیں حیوانوں پر پوری نظمیں لیکن —سچ ہے منٹو نے اپنے خاکے میں جتنے رنگ بھرے تھے…

Read More

اَمّی کے لیے ۔۔۔ واجد امیر

اَمّی کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔ بدن اب سرد ہوتا جارہا ہے کوئی عہدِ گذشتہ آنے والی ساعتوں کی گرد ہوتا جارہا ہے لہو اب جم رہا ہے رگوں میں دوڑتا سیال آخر تھم رہا ہے زباں بے ذائقہ محلول سے مانوس کیسے ہو زباں! بے ربط جملوں اور پھر ٹوٹے ہوئے لفظوں سے آ گے کچھ نہیں کہتی زباں خاموش رہتی ہے کئی مہمل سوالوں کا جواب اک جنبشِ سر سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا یہ جب ہوتا ہے جب دل میں ارادہ کچھ نہیں ہوتا لبوں پر پپڑیاں سی جم…

Read More

رات ہوئی ۔۔۔ فرحت احساس

رات ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔ تم کو پا لینے کی دُھن میں دُنیا اوڑھی رنگ برنگے کپڑے پہنے پیشانی پر سورج باندھا آنگن بھر میں دھوپ بچھائی دیواروں پر سبزہ ڈالا پھولوں، پتّوں سے اپنی چوکھٹ رنگوائی موسم آئے موسم بیتے سورج نکلا، دھوپ کھلی پھر دھوپ چڑھی پھر اور چڑھی پھر شام ہوئی پھر گہری کالی رات ہوئی! ………………………….. مجموعہ کلام: شاعری نہیں ہے یہ عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی ۲۰۱۱ء

Read More

احتمال ۔۔۔۔۔۔ نعیم رضا بھٹی

احتمال ۔۔۔۔ برہنہ خاک کے سارے مناظر فلک کی سرپرستی میں جہانِ دل نشیں مہکا رہے ہیں ہمیں بہلا رہے ہیں مگر احساس غالب ہے کسی خلجان کا پرتو تشدد خیز سی تہذیب کے مانند چہار اطراف پھیلے خوں چکاں منظر ہماری سربریدہ لاش کی جانب کسی کرگس کی  صورت بڑھ رہے ہیں ہمارے خون کو خوراک میں تبدیل ہونا ہے

Read More

نظم ۔۔۔۔ اختر حسین جعفری

نظم ۔۔۔۔ شام ڈھلے تو میلوں پھیلی خوشبو خوشبو گھاس میں رستے آپ بھٹکنے لگتے ہیں زلف کھلے تو مانگ کا صندل شوق طلب میں آپ سلگنے لگتا ہے شام ڈھلے تو زلف کھلے تو لفظوں! ان رستوں پر جگنو بن کر اڑنا راہ دکھانا دن نکلے تو تازہ دھوپ کی چمکیلی پوشاک پہن کر میرے ساتھ گلی کوچوں میں لفظوں! منزل منزل چلنا ہم دنیا کو حرف و صدا کی روشن شکلیں پھول سے تازہ عہد اور پیماں دکھلائیں گے دیواروں سے گلزاروں تک تنہائی کی فصل اگی ہے…

Read More

دوسری جلا وطنی ۔۔۔ مظفر حنفی

دوسری جلا وطنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب گیہوں کا دانا جنس کا سمبل تھا اس کو چکھنے کی خاطر میں جنت کو ٹھکرا آیا تھا اب گیہوں کا دانہ بھوک کا سمبل ہے جس کو پانے کی خاطر میں اپنی جنت سے باہر ہوں!

Read More