خالد علیم ۔۔۔ میرا جی کے نام

میرا جی کے نام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا جی تم میرا جی ہو
میراجی ہم جانتے ہیں
تم صرف ثنااللہ تھے پہلے
آخر اک دن میراسن کے عشق میں میرا جی کہلائے
اور جب میرا جی کہلائے
تم نے ثنا اللہ کے دل کی دھڑکن کو
اپنے اندر مار دیا

جانتے ہیں ہم
تم اچھی نظمیں لکھتے تھے
منٹو کے افسانوں جیسی
کرشن کے سچے کرداروں میں ڈوبی نظمیں
آدھے دھڑ کے  انسانوں  پر پوری نظمیں
حیوانوں پر پوری نظمیں
لیکن —سچ ہے
منٹو نے اپنے خاکے میں جتنے رنگ بھرے تھے
اصل میں اُن رنگوں میں تم جتنے عریاں ہو،
منٹو بھی عریاں ہے
لیکن— یہ بھی سچ ہے
منٹو اپنے افسانوں میں منٹو ہے اور تم اپنی
نظموں میں میراجی ہو
سچ ہے، تم نے
صحراؤں کی خاک نہ چھانی لیکن پورے صحرا تھے تم
قیس کے دشتِ جنوں کی اُڑتی دھول
تمھارے اندر بھی تھی
آنکھوں میں وحشت کا سایہ بھی لرزاں تھا
تم نے بہتے دریاؤں کی سرد روانی بھی دیکھی تھی
میراسن کی گرم جوانی بھی دیکھی تھی
پھر معلوم نہیں کیوں آخر
نگری نگری پھر کر اپنے گھر کا رستہ بھول گئے
نئی کہانی لکھتے لکھتے پچھلا قصّہ بھول گئے
دل پر نظمیں کہتے کہتے دل کی دنیا بھول گئے
میراسن تو میراسن تھی، خود کو پورا بھول گئے
اور پھر اک دن
جانے کہاں سے اپنی نظموں میں تم
دُھول اُڑاتے، اَن دیکھے منظر لے آئے
شاید تم نے ثنا اللہ کے دل کی دھڑکن سُن لی تھی
اِس دھڑکن کو سُن کر تم نے میراسن کو اپنے اندر مار دیا
لیکن —شاید میں نہیں سمجھا،
لیکن— شاید تم نہیں سمجھے
میراجی ! تم میرا جی تھے
میرا جی! تم میرا جی ہو—!!
میراجی! ہم میراجی کی نظموں کے شیدائی ہیں
ہمیں ثنااللہ سے کیا لینا دینا—!!

Related posts

Leave a Comment