اقتدار جاوید … کیڑی کی ماں

کیڑی کی ماں
۔۔۔۔۔۔۔۔
چھٹی کی گھنٹی بجی
لڑکے اسکول سے
شہد سے میٹھے اپنے گھروں کی طرف ایسے مڑتے نظر آئے تھے
شہد کی مکھی جیسے پلٹتی ہے چھتے کی جانب

مسرت کا سیلاب گلیوں میں، کونوں میں،
رونق بھرے دونوں بازاروں میں بہہ رہا تھا
شریروں کا مجمع تھا یا نرم گڈوں کی ڈوریں کٹی تھیں
تھا ’’بو کاٹا‘‘ کا شور
گڈے دکانوں کے چھجوں، درختوں کے ڈالوں،
منڈیروں کے کونوں پہ ہنستے ہوئے گر رہے تھے
زمانے کا میدان ڈوبا ہوا تھا کئی رنگوں میں!

نانبائی کے تندور کی راکھ کے پاس کیڑی کا چھوٹا سا، میٹھا سا بل تھا
جہاں شہد میں ایک لتھڑا ہوا دل تھا
کیڑی نے دیکھا
اڑاتا ہوا جھاگ سیلاب کونوں کو بھرتا ہے
مستی میں واپس پلٹتا ہے
کنڈل بناتے ہوئے پیچھے ہٹتا ہے،
بستی ڈبوتا ہے

کیڑی نے ماں کو بتایا
پہاڑوں سے مٹی اڑاتا
منڈاسوں میں چہرے چھپاتا
وہ پربت کی جانب سے خوں خوار جتھا اترتا ہے
جتھے میں شو اور وشنو ہیں
زرتشت کا اہرمن ہے، اہورا ہے
ترکوں کے گھوڑے ہیں
مخلوط نسلیں ہیں
راہوں کو بے راہ کرتے ہیں
فصلوں کو آتش دکھاتے ہیں
تاتاری النسل بھاری زرہ پہنے بڑھتے ہیں
آتش پہ رکھے ہوئے دودھ کی طرح کڑھتے ہیں،
خوں خوار جتھا روانہ ہے دلی کی جانب!

وہاں ایک لڑکے کی ایڑی کے نیچے، کہیں ایک چھوٹا سا بل،
چھوٹے بل کے دہانے پہ کیڑی کی ماں کا جھلستا ہوا گرم سینہ ہے،
سینے میں کیڑی کی ماں کا غضب ناک دل ہے!!

Related posts

Leave a Comment