رضوان احمد ۔۔۔ بانی ( نئی غزل کی منفرد آواز)

یہ کہنا تو شاید قبل از وقت ہو گا کہ بانی غزل میں ایک نئی روایت کے بانی تھے، مگر یہ ضرور ہے کہ انہوں نے اردو غزل کی کلاسیکی روایات سے انحراف کیا تھا۔ بانی کی غزل خود ہی اس حقیقت پر دال ہے:

محراب نہ قندیل
نہ اسرار نہ تمثیل

کہہ اے ورقِ تیرہ، کہاں ہے تری تفصیل
آساں ہوئے سب مرحلے ایک موجہٴ پاسے
برسوں کی فضا ایک صدا سے ہوئی تبدیل

مرے بدن میں پگھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
اک اور ذات میں ڈھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
مری صدا نہ سہی ہاں میرا لہو نہ سہی
یہ موج موج اچھلتا ہوا سا کچھ تو ہے

ڈھانپ دیا سارا آکاش پرندے نے
کیا دلکش منظر تھا پر پھیلانے کا

تو کوئی غم ہے تو دل میں جگہ بنا اپنی
تو اک صدا ہے تو احساس کی کماں سے نکل

بانی ایسے غزل گو کی حیثیت سے نمایاں ہوئے تھے۔ جس نے نئی غزل کی سمت کا پتا دیا تھا۔ وہ ناصر کاظمی، ابن انشا، شکیب جلالی کے سلسلہ کی کڑی تھے۔ مگر افسوس کہ یہ کڑی بہت جلد ٹوٹ گئی اور بانی نے جو شعری سرمایہ چھوڑا اس کی جانب ناقدین وقت نے توجہ نہیں کی۔ اس کا واضح سبب یہ تھا کہ بانی کا کسی ازم یا گروپ سے کوئی تعلق نہیں تھا، کسی نظریہ سے وابستگی نہیں تھی، تشہیر کے فن سے وہ قطعی ناواقف تھے۔ ناقدین وقت کے حاشیہ برداروں میں بھی نہیں تھے۔ وہ تو بس شاعر تھے بالکل کھرے شاعر۔

پاکستان میں بانی کی بیشتر غزلیں” سویرا“ اور بھارت میں ” شب خون“ میں شائع ہوئی تھی۔”سویرا“ سے ان کا پرانا تعلق تھا کیوں کہ حنیف رامے ان کے بچپن کے دوستوں میں تھے۔ شمس الرحمن فاروقی ان کی شاعری کے مداح تھے اس لیے انہیں ” شب خون“ میں نمایاں مقام ملا۔

مگر بانی پرندے مقامات گمشدہ کے تھے۔ اس لیے ان کی زندگی میں ٹھہراؤ نہیں تھا۔ بانی کا نام راجندر من چندا تھا۔ ان کی پیدائش 28 نومبر کو ملتان میں ہوئی تھی، جو اب پاکستان میں ہے۔ اس وقت ان کی عمر صرف 15-16سال تھی، جب انہیں تقسیم کی گردش کے تھپیڑے دہلی کے ساحل پر لے آیا۔ انہوں نے معاشیات میں ایم اے کیا تھا مگر اپنی افتادِ طبع کے سبب کوئی ڈھنگ کی ملازمت کبھی نہیں مل سکی۔ و ہ ڈیرہ اسمعیل خاں برادری کے ذریعہ چلائے گئے ایک معمولی اسکول میں بچوں کو پڑھاتے تھے۔ وہاں قلیل تنخواہ ملتی تھی، کبھی نہیں بھی ملتی تھی اس پر بھی وہ صابر و شاکر رہتے تھے کیوں کہ ان کے مزاج میں قناعت بہت تھی۔

میری بانی سے ملاقاتوں کا سلسلہ 1974ء میں شروع ہوا۔ خط و کتابت کا آغاز اس سے تین چار سال قبل ہو چکا تھا۔ وہ میری صحافتی تحریروں کے زبردست مداح تھے۔ اسی لیے میں جب بھی دہلی جاتا تھا تو بانی سے ملاقات ضرور کرتا تھا۔ وہ صرف ایک کھرے شاعر ہی نہیں کھرے انسان بھی تھے۔ مجھے ان کے فکر وفن پر باتیں کرنے کے کئی مواقع ملے اور وہ میرے سوالوں کا بہت تفصیل سے جواب دیتے تھے۔ وہ خود بھی ناصر کاظمی اور شکیب جلالی کی غزل کے معترف تھے۔ میرے ان سے تعلقات کا عرصہ بمشکل سات آٹھ سال رہا اور اس درمیان مجھے ان سے بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ بانی ہمیشہ حنیف رامے کا ذکرخیر کرتے تھے اور ان کی صلاحیتوں کے مداح تھے۔

وہ بیمار ہوئے تو انہیں گردے اور گٹھیا کے مرض نے بستر تک محدود کر دیا تھا۔ میں ان کے راجندر نگر میں واقع چھوٹے سے مکان میں جاتا تھا تو مل کر بہت مسرور ہو تے تھے۔ اپنی طویل بیماری کے سبب وہ بڑے کربناک حالات سے گزرے۔ تہی دست، اذیت ناک بیماری اور بیوی بچوں کا بوجھ ان حالات میں اپنوں کی بے اعتنائی، دوستوں کی بے رخی بانی بہت ہی اذیت ناک حالات سے گزرتے رہے اور تمام کرب جھیلتے ہوئے صرف49سال کی عمر میں11اکتوبر 1981ء کی شب میں دنیا سے رخصت ہو ئے۔ ان کے دو شعری مجموعے” حرفِ معتبر “ 1972ء اور ” حساب رنگ“1976ء ان کی زندگی میں شائع ہوئے اور تیسرا مجموعہ ”شفق شجر “ ان کے انتقال کے بعد شائع ہوا۔

اس کے بعد بانی کو سبھی بھول گئے۔ چند سال قبل ایک ہندی رسالے نے بانی پرضخیم نمبر شائع کیا اور اردو والوں کو بانی کی یاد دلائی۔ لیکن اس کے باوجود اردو والوں کی حس بیدار نہیں ہوئی اور بانی کو یکسر فراموش کر دیا گیا۔ یہ ایک طرح سے ایک منفرد ڈکشن کے شاعر کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔ لیکن اس کا کیا جائے کہ جو ادبا یا شعرا ازم اور گروپ سے وابستہ نہیں ہوتے انہیں بہت جلد فراموش کر دیا جاتا ہے۔ یہی المیہ بانی کے ساتھ بھی ہے۔

بانی کی آواز میں جو تازہ کاری ہے وہ ان کی فکر پر دلالت کرتی ہے۔ کیونکہ وہ شعرا کے ہجوم میں بھی الگ نظر آتے تھے۔ ان کی آواز کی انفرادیت کو سبھوں نے محسوس کیا تھا۔

ہم ہیں، منظر سیہ آسمانوں کا ہے
اک عتاب آتے جاتے زمانوں کا ہے
ایک زہراب غم، سینہ سینہ سفر
ایک کردار سب داستانوں کا ہے
کس مسلسل افق کے مقابل ہیں ہم
کیا عجب سلسلہ امتحانوں کا ہے
پھر ہوئی ہے ہمیں مٹیوں کی تلاش
ہم ہیں اڑتا سفر اور ڈھلانوں کا ہے

ان اشعار میں جو الفاظ ملتے ہیں ان میں بہت ہی نیا پن ہے اور ان کے معنی بھی نئی لذت پیدا کرتے ہیں۔ ان کے اشعار میں امکانات کی جو جستجو ملتی ہے وہ قاری کے ذہن میں فکری خلش پیدا کرتی ہے۔ جستجو کی جانب متوجہ کرتی ہے۔ ان کی غزلوں کے اشعار میں ہر جگہ یہی کیفیت موجود ہے۔

ہمیں لپکتی ہوا پر سوار لے آئی
کوئی تو موج تھی دریا کے پار لے آئی
وہ لوگ جو کبھی باہر نہ گھر سے جھانکتے تھے
یہ شب انہیں بھی سرِ رہ گزار لے آئی
میں دیکھتا تھا شفق کی طرف مگر تتلی
پروں پہ رکھ کے عجب رنگ زار لے آئی

بانی کے اشعار ایک خاص کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔ وہ پورا پورا سین پیش کر دیتے ہیں اور اس سے ان کی تخلیقیت کا بھر پور اظہار ہو تا ہے۔

حالانکہ ”حرفِ معتبر“ کی اشاعت کے بعد ناقدین نے بانی کو ”نظارہ لاسمتیت“کا شاعر قرار دیا تھا، لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے اگر بانی کی پوری شاعر ی کو ایک اکائی میں تبدیل کر کے دیکھا جائے تو اندازہ ہو گا کہ ان کی پوری شاعر ی میں گہرا ربط موجود ہے۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ وہ تو مقامات گمشدہ کے پرندے تھے اور لاسمتیت ان کا مقدر سا بن گئی تھی اس لئے تن آسان ناقدوں نے اپنی یہ رائے نافذ کر دی۔ لیکن نامور ناقد پروفیسر گوپی چند نارنگ نے ایک مبسوط مقالہ لکھ کرگمراہ کن آرا کی تردید کر دی۔ وہ لکھتے ہیں: 

” بانی نہ شخصیت کی خود فریبی کا شکار ہیں نہ طلسم خانہ زاد کے اسیر، وہ زمینی اور آسمانی دونوں رشتوں سے بیک وقت وابستگی کے شاعرہیں۔اگر وہ صرف زمینی رشتوں کے شاعر ہو تے تو جسمانیت کی رنگینیوں کی داستانیں سناتے اور آسمانی رشتوں کے شاعر ہو تے تو ماورائی بلندیوں میں کھو جاتے۔ وہ شعور حقیقت کے موجودہ منظر نامے سے انحراف ضرور کرتے ہیں لیکن صرف اس لیے کہ آگہی کی نئی وسعتوں سے ہم کلام ہو سکیں ان کے یہاں نفی کا تاثر اس لیے پیدا ہو تا ہے کہ اس کے بغیر اثبات کی کوئی وقعت نہیں۔اس شاعری کو زمینی رشتوں یا آسمانی رشتوں کے الگ الگ خانوں میں رکھ کر دیکھنا مناسب نہیں ہے۔

بانی کے یہاں زمین، زمین کے لئے یا آسمان آسمان کے لئے یا اقرار بذاتہ یا انکار بذاتہ اہم نہیں۔ بلکہ اہم فن کا وہ باہمی رشتہ ہے جس کی وجہ سے ایک دوسرے کے بغیر سمجھا ہی نہیں جا سکتا یا ایک کاوجود دوسرے کے بغیر بے مصرف و بے معنی ہے۔ بانی کی شاعری متقابل عالمی قوتوں کے ہمہ گیر ربط و تعلق کے احساس و ادراک کی شاعری ہے۔ جو اپنے تخلیقی تجسس، تحرک اور تموج کے پر پرواز سے بے کراں ہوجانا چاہتی ہے۔ اس شاعری میں ذات کو آفاق سے اور آفاق کو ذات سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ بلکہ دونو ں کو ایک دوسرے کے وصیلے سے پرکھنے اور پہچاننے کی راہیں کھلتی ہیں اور یہی وہ نئی شعری جہت ہیں جس کے ذریعہ سے بانی نے نئی غزل کو نئی بشارت دی۔“

یہ اپنی جگہ پر درست ہے کہ بانی نئے خیالات،نئی اصطلاحات، نئے علائم لے کر آئے تھے، انہوں نے زندگی کی کلفتوں اور تلخیوں کو اپنے اندر جذب کر لیاتھااور پھر اسی غم کو غم دوراں بنا کر اپنے انداز میں پیش کیا۔ مگر کیا کرتے وہ تو ستائے ہوئے لوگ تھے اپنوں کے ہاتھوں بھی اور غیروں کے بھی۔ اس لیے یہ کہتے ہوئے چلے گئے۔

دریدہ منظری کے سلسلہ گئے ہیں دور تک
پلٹ چلو نظارہٴ زوال کر نہ پاؤگے

Related posts

Leave a Comment