رضوان احمد ۔۔۔ مخدوم محی الدین: کمیونسٹ لیڈر اور شاعر

مخدوم محی الدین ایک ترقی پسند شاعر تھے۔ گذشتہ سال ان کی پیدائش کی صدی ہندو پاک میں بڑے پیمانے پر منائی گئی تھی اور کئی مقامات پر سیمناار، سمپوزیم، مباحثے اور یاد گاری جلسوں کا انعقاد ہوا۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ مخدوم کی شاعری کا حقیقی طور پرتنقیدی محاسبہ اب بھی نہیں کیاجا سکا ہے، کیوں کہ جلسے، جلوس اور سیمنار تو وقتی ہو تے ہیں ان میں جو مقالے پڑھے جاتے ہیں وہ بھی وقت کا خیال رکھ کر لکھے جاتے ہیں ان میں گہرائی نہیں ہو تی، اس لیے وہ کسی بھی شاعر کے فن کا بھر پور طور پر احاطہ نہیں کر سکتے۔

یہ بات بھی اپنی جگہ پر درست ہے کہ جو شاعری کسی منشور کے تحت کی گئی ہو،اس میں بہت گہرائی نہیں ہے۔ یہ خامی مخدوم کے یہاں بھی ہے، کیوں کہ وہ کلی طور پر کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ تھے اور ان کا شمار سعادت مند قسم کے کمیونسٹوں میں ہو تا تھا انہوں نے کبھی بھی پارٹی لائن سے بغاوت کی کوشش نہیں کی۔

مخدوم محی الدین سے میری ملاقاتوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب وہ 1967ءمیں پہلی بار پٹنہ تشریف لائے تھے۔ اس وقت وہ تنہا نہیں آئے تھے بلکہ ترقی پسند اردو اور ہندی ادیبوں کا ایک وفد مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، اتر پردیش، بہار اور دہلی وغیرہ کا دورہ کر کے یہ مطالبہ کر رہا تھا کہ بھارت کی نو ریاستوں میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے۔ ایسا شاید اس لیے ہو رہا تھا کہ 1967ءمیں کانگریس پارٹی کو زبردست شکست سے دو چار ہونا پڑا تھا اور مشرقی ہند کی تمام ریاستوں میں اپوزیشن پارٹیوں کی حکومتیں قائم ہو گئی تھیں۔

 دراصل اس طور پر کمیونسٹ رہنما اپنے اس گناہ کو دھونے کی کوشش کر رہے تھے جو انہوں نے اردو کے لیے دیو ناگری رسم الخط کا مطالبہ کر کے کیا تھا اب وہ اپنے آپ کو اردو دوست ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کیوں کہ اسی زمانے میں کچھ ترقی پسند اردو مصنفین نے یہ تحریک بہت زور و شور سے چلا رکھی تھی کہ اردو کارسم الخط دیو ناگری کر دیاجائے۔ ان میں راہی معصوم رضا، عصمت چغتائی، خواجہ احمد عباس، سردار جعفری، مجروح سلطان پوری اور آل احمد سرور وغیرہ شامل تھے۔ ان میں ہندی کے امرت رائے ( پریم چند کے صاحب زادے )، کملیشور، دھرم ویر بھارتی وغیرہ بھی شامل تھے جو اس تحریک کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے تھے۔

ترقی پسندوں کی اس تحریک سے کمیونسٹ پارٹی کی بھی کافی بدنامی ہوئی تھی اور ایک طرح سے اردو ہندی مصنفین کا یہ وفد اس داغ کو دھونے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس وفد میں مخدوم محی الدین کے علاوہ ساحر لدھیانوی، کیفی اعظمی، سجاد ظہیر، کرشن چندر، خواجہ احمد عباس، اندیور اور علی سردار جعفری شامل تھے۔ پٹنہ میں ان کے اعزاز میں ایک جلسہ ہوا تھا، جس میں بہا رکی نئی حکومت کے نائب وزیرِ اعلیٰ کرپوری ٹھاکر بھی شامل تھے۔

 میں اس جلسے میں مرحوم سہیل عظیم آبادی کے ساتھ گیا تھا اور انہوں نے سبھوں سے میرا تعارف کروایا تھا لیکن میں اس وقت ادب میں بالکل نو وارد تھا اس کی وجہ سے سوائے مخدوم محی الدین کے کسی نے میری جانب توجہ نہیں کی تھی۔ مخدوم محی الدین صاحب کے بھی متوجہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ میرے والد غبا ر بھٹی سے واقف تھے، جو ان کے ساتھ کئی مشاعروں میں شرکت کر چکے تھے۔

یہ جلسہ کافی کامیاب رہا تھا اس میں کرشن چند ر نے اپنی کہانی ”جامن کا پیڑ“ خواجہ احمد عباس نے ’داروغہ اور لڑکی‘ اور ساحر نے ”پرچھائیاں“ کے کافی حصے سنائے تھے۔ البتہ مخدوم کو لوگوں نے کافی توجہ سے سنا تھا کیوں کہ مخدوم اردو کے واحد شاعر تھے جو اپنی آزاد نظمیں بھی ترنم سے سنایا کرتے تھے۔ اس جلسے میں بھی انہوں نے اپنی نظم ”چارہ گر“سنائی تھی:

ایک چنبیلی  کے منڈوے تلے
میکدے سے ذرا دور اس موڑ پر
دو بدن پیار کی آ گ میں جل گئے

اس نظم کا یہ حصہ تو بہت ہی متاثر کن ہے:

ہم نے دیکھا انہیں
دن میں اور رات میں
نور و ظلمات میں
مسجدوں کے میناروں نے دیکھا انہیں
مندروں کے کواڑوں نے دیکھا انہیں
میکدوں کے دراڑوں نے دیکھا انہیں
از ازل تا ابد
 یہ بتا چارہ گر
تیری زنبیل میں
نسخہ کیمیائے محبت بھی ہے؟
کچھ علاج مداوائے الفت بھی ہے؟
 
مخدوم سے یہ ملاقات بہت مختصر رہی تھی، کیوں کہ اگلے ہی دن پھراس وفد کو گیا چلے جانا تھا۔ لیکن اس کے چند ماہ بعد ہی ملاقات کی ایک اور سبیل نکل آئی کہ پٹنہ میں کمیونسٹ پارٹی کا سالانہ اجلاس ہوا تھا جس میں شرکت کے لیے وہ تشریف لائے تھے اور پانچ چھ دنوں تک پٹنہ میں رہے تھے۔ اس موقعے پر مجھ کو ان سے انٹر ویو کرنے کا بھی موقع ملا تھا۔ مخدوم ترقی پسندوں کے منشور کے تابع تو ضرور تھے لیکن ادب کے بارے میں ایک واضح نظریہ بھی رکھتے تھے۔ ان کا اردو کے کلاسیکی ادب اور فارسی ادب کا مطالعہ کافی وسیع تھا۔ حافظ کے تو وہ زبردست مداح تھے اور ان سے استفادہ بھی کیا تھا۔شاید اسی لیے انہوں نے ”گل تر“ کے دیباچے میں لکھا ہے:

’زماں و مکاں کا پابند ہونے کے باوجود شعر بے زماں ہو تا ہے اور شاعر اپنی ایک عمر میں کئی عمریں گزارتا ہے۔ سماج کے بدلنے کے ساتھ ساتھ انسانی جذبات اور احساسات بھی بدلتے رہتے ہیں مگر جبلتیں برقرار رہتی ہیں۔ تہذیب، انسانی،جبلتوں کو سماجی تقاضوں سے مطابقت پیدا کرنے کا مسلسل عمل ہے۔ جمالیات حس انسانی حواس کی ترقی اور نشو و نما کا دوسرا نام ہے اگر انسان کو سماج سے الگ چھوڑ دیاجائے تو وہ ایک گونگا وحشی بن کر رہ جائے گا جو اپنی جبلتوں پر زندہ رہے گا۔ فنون لطیفہ انفرادی اور اجتماعی تہذیب و نفس کا بڑا ذریعہ ہیں جو انسان کو وحشت سے شرافت کی بلندیوں پر لے جاتے ہیں۔‘

مخدوم کے یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے اندر کے شاعر اور باہر کے کامریڈ میں زبردست مقابلہ آرائی ہو تی رہی ہے اور کبھی کبھی شاعر کامریڈ پر حاوی ہو گیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مخدوم ایک بہت اچھے انسان تھے۔ انسانیت اور شرافت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے غربت کو نہ صرف جھیلا تھا بلکہ اس کا بہت قریب سے مشاہدہ بھی کیا تھا۔ یہ ان کی زندگی کا ذاتی تجربہ بھی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بڑے کمیونسٹ لیڈر اور ایوان سازیہ کے رکن ہونے کے باوجود مخدوم کا غریب اور مزدور طبقے سے تعلق بے حد استوار رہا۔
 
کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس کے دوران میری ان سے نصف درجن بار سے زائد ملاقاتیں ہوئی۔ میرے ہمراہ وہ پٹنہ کے مختلف ادبا اور شعرا سے ملنے کے لیے ان کے گھر بھی گئے۔ جن میں پروفیسر کلیم الدین احمد، قاضی عبد الودود اور علامہ جمیل مظہری جیسی شیان ت تھیں۔ انہوں نے میرے ساتھ جا کر بازار سے خریدار ی بھی کی اور عام اصحاب سے ملے۔

کچھ ہی عرصہ بعد وہ پٹنہ میں کمیونسٹ پارٹی کے امیدوار ڈاکٹر اے کے سین کی انتخابی مہم چلانے کے لیے آئے اور اس دوران بھی وہ چار پانچ دنوں تک ٹھررے۔ وہ بڑے زبردست مقرر تھے۔ اس موقع پر مجھے ان کی تقریریں سننے کا بھی موقع ملا۔ تقریر کے دوران وہ شعر و شاعری بالکل نہیں کرتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ جس جلسے میں جاتے تھے تو تقریر کے بعد ان سے شعر سنانے کی بھی فرمائش ہو تی تھی اور وہ ان فرمائشوں کو پورا کرتے تھے۔

مجھے اس انتخاب کا ایک دلچسپ واقعہ یاد آرہا ہے کہ ایک روز انہوں نے مجھ سے کہا کہ ان کے کمیونسٹ امیدوار کے خلاف کانگریس کے جو امیدوار پرنسپل محمد معین صاحب ہیں وہ ان سے ملنے کے لیے جائیں گے۔معین صاحب بہت ہی باوضح آدمی تھے۔ پٹنہ کے بہت ہی باوقار تعلیمی ادارہ بی این کالج کے پرنسپل تھے۔ میں جب انہیں لے کر معین صاحب کے یہاں پہنچا تو انہوں نے بڑی خوش اخلاقی سے ان کا استقبال کیااور کافی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ اس دوران الیکشن کے بارے میں قطعی کوئی بات نہیں ہوئی۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ مخدوم محی الدین کتنے وضع دار انسان تھے۔

نئی دہلی میں 15جنوری 1969ءکو اچانک ہی ان کا انتقال ہو گیا۔  چار فروری 1908ءکو آندھرا پردیش کے میدک سے ابو سعید مخدوم محی الدین حضری کا جو سفر شروع ہوا تھا وہ ایک زبردست جدوجہد کے بعد ختم ہو گیا۔ انہوں نے اپنے تین شعری مجموعے ’بساطِ رقص‘، ’سرخ سویرا‘ اور ’گلِ تر‘ یاد گار چھوڑے ہیں۔

Related posts

Leave a Comment