رضوان احمد … حرف سرِدار: اشفاق اللہ خاں حسرت وارثی کی شاعری

زنداں اور طوق و سلاسل کی آزمائشوں سے تو ہمارے کتنے ہی ادبا و شعرا گزرے ہیں کتنوں کو قفس کی تیلیوں کے اندر اپنی فکر کا اظہار کرنا پڑا ہے، کتنوں نے زنجیروں کی جھنکاروں کے درمیان شاعری کی ہے۔ ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنا کر بھی فکر کو اسیر نہیں کیا جا سکا۔ لیکن اشفاق اللہ خاں حسرت وارثی شاید واحد شاعر ہیں جن کو پھانسی کی سزا دے دی گئی اور ان کی مکمل شاعری حرف سرِ دار ہے۔ کیوں کہ وہ کوئے یار سے نکل کر سیدھے سوئے دار کی جانب چلے گئے اور پھانسی کے پھندے کو چوم لیا۔

حسرت وارثی کون تھے؟ ان کا ذکر شعر و سخن کی کسی کتاب میں نہیں ملتا، کہیں ان کی شاعری کا حوالہ نہیں دیا جاتا۔ البتہ 1972ءمیں اشفاق اللہ کا خاں کا ذکر اخبارات میں اس وقت آیا جب جسٹس آنند نرائن ملا کا شعری مجموعہ ”سیاہی کی ایک بوند“ شائع ہوا، جس کے سر ورق پر یہ شعر لکھا ہوا تھا:

خونِ شہید سے بھی ہے قیمت میں کچھ سوا
فن کار کے قلم کی سیاہی کی ایک بوند

اس بات پر شدید تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا کہ ملا نے شہید کی عظمت کی توہین کی ہے اور کیوں نہ کریں کیوں کہ ان کے والد بیرسٹر جگت نرائن ملا ہی کاکوری کیس میں سرکاری وکیل تھے جنہوں نے کاکوری کیس کے مجاہدین کو پھانسی کی سزا دلوائی تھی اور آنند نرائن ملا اس کیس میں معاون وکیل تھے۔ اس مقدمے میں اشفاق اللہ خاں کے علاوہ رام پرشاد بسمل، جوگیش چندر چٹرجی، راجیندر لاہڑی،سچندر ناتھ بخشی، ستندر ناتھ سانہیال اور دس ملزمین تھے، جنہیں پھانسی یا عمر قید کی سزا دی گئی۔ آنند نرائن ملا کے خلاف بڑا شدید تنازعہ کھڑا ہوا یہاں تک کہ کتاب کو ضبط کرنے اور ملا سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا گیا۔

اس تنازعہ کے بعد میری ملاقات مقدمے کے ایک مجرم سچندر ناتھ بخشی سے لکھنئو میں 1975ءمیں ہوئی تھی جنہوں نے 14برس جیل میں گزارے تھے اور میں نے اس مسئلے پر ان کا انٹر ویو کیا تھا تو انہوں نے بتایاتھا کہ وہ اشفاق اللہ خاں کے ساتھ لکھنئو ڈسٹرکٹ جیل میں تھے اور جب جگت نرائن ملا مقدمہ میں آتے تھے تو اشفاق اللہ خاں ان کی جانب اشارہ کر کے طنزیہ اشعار پڑھتے تھے۔ بخشی نے بتایا تھا کہ جگت نرائن کو روزانہ پانچ سو روپے اور آنند نرائن کو سو روپے ملتے تھے جو1925ء میں بڑی رقم تھی۔ بخشی نے بتایا تھا کہ اشفاق اللہ نے ان پر ایک طنزیہ غزل کہی تھی جو وہ جیل میں اکثر سناتے تھے۔ اس غزل کے کچھ اشعار یہ ہیں:

سنائیں غم کی کسے کہانی ہمیں تو اپنے ستا رہے ہیں
ہمیشہ صبح ومسا وہ دل پر ستم کے خنجر چلا رہے ہیں
نہ کوئی انگلش نہ کوئی جرمن نہ کوئی رشین نہ کوئی ٹرکی
مٹانے والے ہیں اپنے ہندی جو آج ہم کو مٹا رہے ہیں
اور یہ شعر تو براہ راست ملا کے کردار پر طنز ہے:
چلو چلو یاروں رنگ تھیٹر دکھائیں تم کو وہاں پر لبرل
جو چند ٹکڑوں پہ سیم و زر کے نیا تماشہ دکھا رہے ہیں
خموش حسرت، خموش حسرت اگر ہے جذبہ وطن کا دل میں
سزا کو پہنچیں گے اپنی بے شک جو آج ہم کو پھنسا رہے ہیں

بہر حال کون سزا کو پہنچا اور کسے عیش و عشرت کے مقام حاصل ہوئے یہ تو وقت نے ہی بتا دیا۔ بقول محسن بھوپالی:

منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

 کچھ عرصے کے بعد یہ تنازعہ ختم ہو گیا اور اشفاق اللہ خاں کا نام پھر پس پشت چلا گیا، کیوں کہ آنند نرائن ملا اس وقت رکن پارلیمنٹ ہی نہیں وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی کے قریبی دست راست تھے۔ اس کے علاوہ وہ انجمن ترقی ہند کے صدر بھی تھے۔

لیکن اشفاق اللہ سنگھ کی قربانی ایک ایسی مثال ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ گذشتہ دنوں پٹنہ کی خدا بخش لائبریری نے ان کی شخصیت اورخدمات پر کراچی میں مقیم نامورمحقق ابو سلمان شاہجہاں پوری کی ایک کتاب شائع کی۔ جس کا نام ہے ”اشفاق اللہ خاں شہید حیات و افکار‘ کاکوری کیس کا ہیرو “ اس کتاب کی اشاعت کے بعد ہی ان کے کارنامے عوام کے سامنے آسکے جو اب تک پردہ خفا میں تھے۔

اشفاق اللہ خاں شاہجہاں پور کے ایک زمیندار خاندان میں 22 اکتوبر 1900ءکو پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد ایک سپاہی تھے اور والدہ مظہر النساء پڑھی لکھی خاتون تھیں۔ اشفاق اللہ خاں آٹھ سال کے ہی تھے تب ان کے والد کا انتقال ہو گیا تھا اور بچپن سے ہی اشفاق اللہ خاں کا ذہن آزادانہ فکر لے کر پیدا ہوا تھا۔ وہ حریت افکار کے علمبردار تھے ۰ اسی لیے وہ باغیانہ سر گرمیوں میں حصہ لینے لگے تھے۔ نو اکتوبر  1925ءکی شب میں لکھنئو کے قریب کاکوری کے پاس سہارنپور سے لکھنئو آنے والی ٹرین کو روک کر اس میں رکھا ہوا سر کاری خزانہ لوٹ لیا گیا تھا۔ یہ کارنامہ انڈین ری پبلک ایسو سی ایشن کے دس نوجوانوں نے انجام دیا تھا جن میں اشفاق اللہ خاں سر فہرست تھے۔

مقدمہ اسی انداز میں چلا جیسا کہ انگریزوں کے زمانے میں چلتا تھا اور پھر اشفاق اللہ خاں، رام پرساد بسمل اور دوسرے ماخوذین کو پھانسی کی سزاسنا دی گئی۔ اشفاق اللہ کو 19دسمبر1927ء کو فیض آباد جیل میں پھانسی دی گئی تھی۔ ابو سلمان شاہجہاں پوری نے اس کتاب میں اشفاق اللہ خاں کی ڈائری کے علاوہ ان کا کلام بھی جمع کر کے شائع کیا ہے۔ انہیں جب پھانسی دی گئی تو ان کی عمر صرف 27سال تھی۔ ظاہر ہے کہ ان کے کلام میں افکار کی بلندی نہیں ہے اس کے علاوہ اس میں شعری محاصل کی تلاش بے سود ہے لیکن اس شاعری میں ایک قیدی کے وہ احساسات و تاثرات ضرور ملتے ہیں جو لمحہ لمحہ موت کی جانب بڑھ رہا ہے۔ مگر جھکنے کے لیے تیار نہیں:

شہیدان وطن کا خون ایک دن رنگ لائے گا
چمن میں پھوٹ کر نکلے گا بر گ ار غواں ہو کر
فقط دار رسن ہی کامیابی کا ذریعہ ہے
مقاصد تک یہ پہنچائے گی ہم کو نردباں ہو کر
ستا لے اے فلک مجھ کو جہاں تک تیرا جی چاہے
ستم پرور ستم جھیلوں گا میں شیر زماں ہو کر
دہلتا ہے کلیجہ دشمنوں کا دیکھ کر حسرت
چلا کر تے ہیں بیڑی پہن کر جب شادماں ہو کر

رنگت اب وہ کہاں ہے نسرین و نسترن میں
اجڑا ہوا پڑا ہے کیا خاک ہے وطن میں
کچھ آرزو نہیں ہے ہے آرزو تو یہ ہے
رکھ دے کوئی ذرا سی خاک وطن کفن میں
صیاد ظلم پیشہ آیا ہے جب سے حسرت
ہیں بلبلیں قفس میں زاغ و زغن چمن میں

بہار آئی ہو ئی شورش جنون فتنہ ساماں کی
الہی خیر کرنا تو میرے جیب و گریباں کی
صحیح جذبات حریت کہیں میٹے سے مٹتے ہیں
عبث ہیں دھمکیاں دارو رسن کی اور زنداں کی
زمیں دشمن، زماں دشمن جو اپنے تھے پرائے ہیں
سنو گے داستاں کیا تم میرے حال پریشاں کی
زبان حال سے اشفاق کی تربت یہ کہتی ہے
محبان وطن نے کیوں ہمیں دل سے بھلایا ہے
بہت افسوس ہوتا ہے بہت تکلیف ہو تی ہے
شہید اشفاق کی تربت ہے اور دھوپوں کا سایہ ہے
ہم رہے یا نہ رہیں، ایسے رہیں یاد رہیں
اس کی پروا ہے کسے شاد کہ ناشاد رہیں

زندگی بعد فنا تجھ کو ملے گی حسرت
تیرا جینا تیرے مرنے کی بدولت ہو گا

اور پھر یہ کہتے ہوئے فیض آباد جیل میں پھانسی کے پھندے پر جھول گئے:

 تنگ آکر ہم بھی ان کے ظلم سے بیداد سے
 چل دیے سوئے عدم زندانِ فیض آباد سے

Related posts

Leave a Comment