اکرم کنجاہی ۔۔۔ عنبرین حسیب عنبر

عنبرین حسیب عنبر

عمر بھر کے سجدوں سے مل نہیں سکی جنت
خُلد سے نکلنے کو اک گناہ کافی ہے

پہلو دار تفہیم کا حامل یہ شعر عنبریں حسیب عنبر کا ہے جو ہمارے عہد کی ایک مقبول شاعرہ، مدیرہ، معروف نظامت کار اور سنجیدہ محقق ہیں۔اِن دنوںاندرون ملک اور بیرون ملک مشاعروں میں اِ نہیں توجہ سے سنا جا رہا ہے۔پہلے ایک غزل ’’تم بھی ناں‘‘ کا بڑا چرچا رہا۔ ابھی داد و تحسین نہیں تھمی تھی کہ ایک اور غزل ’’توبہ ہے‘‘کا ڈنکا بجنے لگا۔ نہایت پُر اعتماد لہجے میں ادبی تقریبات کی نظامت کرتی ہیں۔ ادبی مکالمہ کر نے صلاحیت سے متصف ہیں۔ ایک مدیرہ کی حیثیت سے ادبی جریدہ ’’اسالیب‘‘ نکالا۔ کراچی آرٹس کونسل میں ادبی کمیٹی شعرو سخن کی چیر پرسن ہیں۔ اِس فورم سے انہوں نے گزشتہ سال عمدہ تقاریب کا اہتمام کیا ہے۔ غزل اور نظم دونوں میدانوں میں طبع آزمائی کرتی ہیں۔پہلے ایک مجموعہ ’’دل کے اُفق پر‘‘ شائع ہوا تھا۔حال ہی میں اُن کا دوسرا شعری مجموعہ ’’تم بھی ناں‘‘ اسلام آباد سے اشاعت پذیر ہوا ہے۔عنبر اپنے اشعار میں نسائی جذبات کا اظہار تو کرتی ہے مگر وہ فیمینسٹ ہے اور نہ اُس کے ہاں بلا وجہ کی نسائی مظلومیت جھلکتی ہے بلکہ کلام میں ایک ایسی پُر اعتماد، خود دار اور با وقار عورت کا اعتماد اور رکھ رکھاؤ جھلکتا ہے جو اپنے زخموں کی مسیحائی کے لیے کسی دستِ شفا کی منت کش نہیں ہونا چاہتی:

وہ مسیحا نہ بنا، ہم نے بھی خواہش نہیں کی
اپنی شرطوں پہ جیے، اُس سے گزارش نہیں کی
٭
اتنی کدورتیں ہیں تو کیوں کر ملائیں ہاتھ
جب ربطِ دل نہیں ہے تو کیا گفتگو کریں
٭
تنہا ترقیوں کے سفر میں نہیں ہوں میں
میرا وقار میری انا میرے ساتھ ہے
٭
اب کے ہم نے بھی دیا ترکِ تعلق کا جواب
ہونٹ خاموش رہے، آنکھ نے بارش نہیں کی
٭
آپ سے مخاطب ہوں آپ ہی کے لہجے میں
پھر یہ برہمی کیسی اور یہ شکایت کیوں
٭
اب ہنس کے تیرے ناز اٹھائیں تو کس لیے
تو نے بھی تو لحاظ ہمارا نہیں کیا

ہم بدل گئے ہیں یا دنیابدل گئی ہے۔ کچھ سماجی اور معاشرتی اقدار تھیں۔جن کی بنیاد اعلا اخلاقیات پر تھی۔ ہر شخص اُن کا احترام کرتا تھا۔مگر ہم اخلاقی انحطاط اور فکری انتشار کا شکار ہو گئے ہیں۔فرد کسی معاشرے کی بنیادی اکائی ہوتا اور اگر اُس پر ہی سے اعتماد اٹھ جائے تو معاشرے کو زوال آشنا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔اِس تہذیبی و اخلاقی زوال پر عنبر کی گہری نظر ہے۔ دورِ حاضر کے انسان سے اُسے شکایت ہے جس کی روح تشنہ اور ویران ہے۔اُس کی مایوسی اور اضطراب یہ ہے کہ انسان نے اپنی ذات کو تمام خواہشات کا مرکز و محور بنا لیا ہے۔جب ایسا ہوتا ہے تو پھر آدمی خاک کا پتلا رہ جاتا ہے جو اپنے مفادات کے لیے احسان فراموشی، ضمیر فروشی اور عیاری و مکاری کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُس کے ہاں دنیا اور اہلِ دنیا سے متعلق ایک خاص رویہ پایا جاتا ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ اپنے عصر کی یوں عکاسی گہرا مشاہدہ اورمقصدیت ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ جسم متحرک ہیں مگر روح کی موت واقع ہو چکی ہے۔نتیجہ یہ کہ وفا کے دعوی بہت ہیں، کوئی وفا دار نہیں۔ خوفِ خدا ہمارے دلوں سے اٹھ چکا ہے اور دنیا اعتبار اور بھروسے کے لائق نہیں رہی۔لہٰذا اُس کا نقطۂ نظریہ ہے کہ چار روزہ ہستی میں ہنس کے جی لیں تو بے کیف و سرور دینا سے اتنا ربط و تعلق ہی کافی ہے:

سب ہی بازار میں بکنے کے لیے آئے ہیں
پھر بھلا کس کو میسر ہو خریدار یہاں
٭
چار دن کی ہستی میں ہنس کے جی لیے عنبر
بے نشاط دنیا سے یہ نباہ کافی ہے
٭
یوں تو ہم بھی کون سا زندہ رہے اِس شہر میں
زندہ ہونے کی اداکاری مگر کرتے رہے
٭
اے خدا عجب ہے ترا جہاں مرا دل یہاں پہ لگا نہیں
جہاں کوئی اہلِ وفا نہیں، کسی لب پہ حرفِ دعا نہیں
یہ جو حشر برپا ہے ہر طر ف تو بس اِس کا ہے یہی اک سبب
ہے لبوں پہ نامِ خدا مگر کسی دل میں خوفِ خدا نہیں
٭
اب کسی اور سلیقے سے ستائے دنیا
جی بدلنے لگا اسبابِ پریشانی سے
٭
بے مہریٔ حیات تجھے کچھ خبر بھی ہے
دیکھے گئے جو خواب سہانے کہاں گئے
٭
جسم و جاں میں در آئی اس قدر اذیت کیوں
زندگی بھلا تجھ سے ہو رہی ہے وحشت کیوں
٭
کہا جلتا ہوا گھر دیکھ کر اہلِ تماشا نے
دھواں ایسے نہیں اٹھتا شرر ایسا نہیں ہوتا
٭
دنیا تو ہم سے ہاتھ ملانے کو آئی تھی
ہم نے ہی اعتبار دوبارہ نہیں کیا
٭
اٹھاؤں بوجھ کیوں منزل تک اُس کا
یہ دنیا کب مرے سامان میں ہے

اگرچہ محبت انسان کا بالکل داخلی، ذاتی اور نجی معاملہ ہے مگر شعر گوئی میں نہیں، اِس لیے عنبر نے اپنے ہُنر اور لفظیات کے ذریعے، پہلو بچا کر سب کچھ نہ صرف کہہ دیاہے بلکہ ذاتی معاملات کو انسانی معاملات بنا کر پیش کیا ہے۔زندگی کے اِن نازک معاملات پر گفتگو بھی احتیاط کی متقاضی ہوتی ہے۔ایسی موضوعات کو انفرادیت کے ساتھ غزل کا پیرہن عطا کرنا چنداں آسان نہیں:

تعلقات میں لازم حجاب ہے عنبر
خدا، خدا نہ رہے آشکار ہونے سے

مشرقی عورت ہمیشہ سے نہ صرف محسوس کرتی ہے بلکہ اِس بات کی عملی ثبوت بھی دیتی ہے کہ محبت اور قربانی میں ہی گھر کی تعمیر مضمر ہے۔اُن کے ہاں خانگی ذمے داری کا احساس واضح ہے:

محبت اور قربانی میں ہی تعمیر مضمر ہے
درو دیوار سے بن جائے گھر ایسا نہیں ہوتا
٭
میرے جذبوں کی دھنک سے ہے سجاوٹ اِس کی
میرے احساس کی تجسیم بنا گھر میرا

مادرانہ شفقت اُس کے کلام میں شبنم شکیل کی شاعری کی یاد تازہ کرتی ہے۔’’ماں‘‘ ہونا ہر عورت کی طرح اُسے مکمل ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ نظم کی پہلے مصرعے میں آگ ہوتے روز و شب جیون کی کٹھنائیوں کو ظاہر کر رہے ہیں۔ ایسے میں ایک احساس ہے جو آگ ہوتے روز و شب کو شبنم بنا رہا ہے۔ اُس کی نظم ’’کہانی جو ادھوری تھی‘‘ کے چند ابتدائی مصارع ملاحظہ کیجیے:

یہ کس نے آگ ہوتے روز و شب میں
مجھ کو ماں کہہ کر پکارا ہے
کہ جس کی پیار میں ڈوبی ہوئی آواز نے
ہر آگ کو شبنم بنایا ہے
کہ اب رتبہ مجھے ماں کا دلایا ہے

اُس کے اسلوبِ بیاںمیں سادگی ہے، تصنع نام کو نہیں۔اُس نے فارسی اضافتوں سے بھی حتی الوسع پہلو تہی کی ہے۔وہ مشکل الفاظ سے اشعار کو بوجھل نہیں ہونے دیتیں۔اُس کی غزلوں کی طرح نظموں میں بھی کوئی بناوٹ یا صنّاعی نہیں، فنکارانہ ہُنر مندی ہے۔عمومی طور پر مفرد الفاظ میں لکھتی ہیں۔ موضوعات بھی ۱ور اسلوبِ بیاں کے اعتبار سے اُس کی غزل و نظم میں کوئی فرق نہیں۔ ہئیت کے لحاظ سے زیادہ تر نظمیں آزاد و نثری ہیں جن میں لب و لہجے کی سادگی،پُر شکوہ الفاظ کے اجتناب، مشکل ترکیبوں سے پہلو تہی اور جذبے کی صداقت نمایاں ہے۔اپنے بچے کے لیے وہ مادرانہ شفقت کا اظہار ہو یا دنیا کے بدلتے تناظر اور معیارات، عنبر کے اشعار میں خلوص، درد مندی اور سچائی واضح محسوس ہوتی ہے اور تاثر میں اضافہ کرتی ہے۔ اُس کی نظمیں زیادہ مبسوط نہیں ہیں مگر مربوط ہیں اور شعریت کا تاثر سمیٹے ہوئے ہیں۔آزاد نظم ’’سوال‘‘ میں تخلیق کا کرب اور سچائی کی تلخی موجود ہے۔ شاعرہ دو دنیاؤں میں زندہ ہے۔ایک اُس کی لا شعور و وجدان کائنات، بے لوث محبتوں اور سچے کھرے جذبوں سے عبارت اور دوسری اُس کے خارجی مشاہدات و تجربات کی دنیا جس میں وہ سانس لے رہی ہیںجس میں ہر شخص مادی خواہشات کا زر خرید غلام ہے۔ مفادات کی دوڑ میں دوسروں کو کچل کر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ اُس کا دکھ یہ ہے کہ مشاہدات کی دنیا اندر کی راعنائی اورخوب صورتی سے ہم آہنگ نہیں ہے:

’’سوال‘‘
ہم اپنے خواب خوش فہمی سے اٹھے
بہت شاداں و فرحاں
چلے دنیا کی جانب مول کرنے کو
ہماری جیب میں مہر و وفا اخلاص اور سچائی ہے
لیکن
یہاں بازار میں سب لوگ کہتے ہیں
بدل کر رہ گئی ہے اب کرنسی اس زمانہ کی
تمہارے پاس تو جو کچھ بھی ہے
بے کار ردی ہے
کہ اب وقعت نہیں ہے کوئی جس کی
یہاں تو اب فقط
مکر و فریب اور جھوٹ کا سکہ چلے گا
اگر یہ پاس ہے
تو ساری دنیا ہے تمہاری
ہماری سادگی پر
اک زمانہ ہنس رہا ہے
جسے دیکھو تعجب سے یہی وہ پوچھتا ہے
کہاں تم اب تلک سوئے ہوئے تھے
کہ دنیا اس قدر تبدیل ہونے کی خبر تم تک نہیں پہنچی
نہیں معلوم یہ کیا ماجرا ہے
وگرنہ ہم تو سنتے آئے تھے اب تک
کہ جو اک عرصہ محو خواب رہتے ہیں
کسی بہتر زمانہ میں اٹھا کرتے ہیں
لیکن
ہمارے ساتھ یہ کیا ہو گیا ہے
عنبرین کی ادبی تربیت میں اُس کے والد پروفیسر سحر انصاری کی قد آور ادبی شخصیت کا حصہ تو ہے مگر عنبر کا لہجہ نسائی ہے۔کلام اپنے والد سے فکری و اسلوبیاتی دونوں اعتبار سے یک سر مختلف ہے۔ اُس کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے، ایک میںبزرگوں سے ملنے والے اپنے ادبی ورثے کا ذکر ہے تو دوسرے میں خوب صورتی سے شوق کو اپنا راہبر قرار دیا گیا ہے:

کل وراثت یہی اجداد سے پائی میں نے
فکر میراث مری، علم ہے زیور میرا
٭
کاش یہ بات کوئی خضر کو سمجھا سکتا
منزلیں شوق سے ہیں،راہ دکھانے سے نہیں

ایک شعری مجموعہ ’’دل کے افق پر‘‘ با ذوق احباب میں پسند کیا گیا۔ ایک اور مجموعہ ’’تم بھی ناں‘‘ بھی اشاعت پذیر ہوا ہے۔کلام میں کہیں کہیں جو ایک خود احتسابی کا پہلو نظر آتا ہے وہ اُن کی انفرادیت ہی نہیں مثبت انداز فکر کا عکاس بھی ہے:

کیا قیامت ہے کوئی چیز ٹھکانے سے نہیں
یہ شکایت مجھے خود سے ہے زمانے سے نہیں

اُس کے پہلے دونوں مجموعہ ہائے کلام یہ بات واضح کرتے ہیں کہ اُس کے ہاں مثبت فکری ارتقا نمایاں ہے۔ تجربات و مشاہدات کے تنوع نے انہیں وسعتِ نظری عطا کی ہے۔اظہارِ بیاں بھی عصری اسلوب سے زیادہ ہم آہنگ ہوا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ اب وہ سحر انصاری کے اُس اسلوبِ بیاں کی طرف بڑھ رہی ہیں جو آج بھی تازہ کاری سے مملو ہے تو غلط نہ ہو گا:

خلعتِ عظمت و دستارِ رِیا پہنے ہوئے
آپ جو بھی ہوں مگر میرے گھرانے سے نہیں
٭
میں نے لکھا ہے محبت کا ترانہ عنبر
جب بھی ایجاد ہوا ہے نیا ہتھیار کوئی

Related posts

Leave a Comment