اکرم کنجاہی ۔۔۔ عنبرین حسیب عنبر

عنبرین حسیب عنبر عمر بھر کے سجدوں سے مل نہیں سکی جنت خُلد سے نکلنے کو اک گناہ کافی ہے پہلو دار تفہیم کا حامل یہ شعر عنبریں حسیب عنبر کا ہے جو ہمارے عہد کی ایک مقبول شاعرہ، مدیرہ، معروف نظامت کار اور سنجیدہ محقق ہیں۔اِن دنوںاندرون ملک اور بیرون ملک مشاعروں میں اِ نہیں توجہ سے سنا جا رہا ہے۔پہلے ایک غزل ’’تم بھی ناں‘‘ کا بڑا چرچا رہا۔ ابھی داد و تحسین نہیں تھمی تھی کہ ایک اور غزل ’’توبہ ہے‘‘کا ڈنکا بجنے لگا۔ نہایت پُر اعتماد…

Read More

اکرم کنجاہی ۔۔۔۔ پروین فنا سید

پروین فنا سید پروین فنا سید ایک ایسی شاعرہ تھیں جنہوں نے جدت کے نام پر شعری بدعتیں قبول نہیں تھیں۔ لہٰذا اُن کی شاعری اعتدال، انسان دوستی، حسن و جمال اور اعتماد کی شاعری ہے۔اُن کا پہلامجموعۂ کلام ’’حرفِ وفا‘‘ اُن کی بیس برس کی شعری ریاضت کے بعد منظرِ عام پر آیا۔ کتاب کافلیپ تحریر کرتے ہوئے احمد ندیم قاسمی نے لکھا: ’’پروین فنا سیّد کی شاعری عفتِ فکر اور پاکیزگیِ احساس کی شاعری ہے۔غزل کی سی صنفِ شعر میں بھی جس میں اکثر شاعروں نے علامت اور…

Read More

عصرِ رواں کا نمایندہ تنقید نگار: اکرم کنجاہی ۔۔۔ شاعر علی شاعر

عصرِ رواں کا نمایندہ تنقید نگار: اکرم کنجاہی جناب اکرم کنجاہی سے میری پہلی ملاقات نیشنل بینک آف پاکستان، کراچی میں منعقدہ ایک مشاعرے میں ہوئی۔ دو تین ملاقاتوں کے بعد اُن کا چوتھا شعری مجموعہ ’’دامنِ صد چاک‘‘ اپنے اشاعتی ادارے ’’رنگِ ادب پبلی کیشنز، کراچی‘‘ سے شایع کرنے کی سعادت بھی ملی۔ دامنِ صد چاک سے قبل اُن کے تین شعری مجموعے ’’ہجر کی چتا‘‘، ’’بگولے رقص کرتے ہیں‘‘ اور ’’محبت زمانہ ساز ہے‘‘ شایع ہو چکے تھے۔ دامنِ صد چاک کو دنیائے اُردو ادب میں اتنی پذیرائی…

Read More

اکرم کنجاہی ۔۔۔ طاہرہ اقبال (مضمون)

طاہرہ اقبال طاہرہ اقبال اِن دنوںگورنمنٹ کالج فار ویمن یونی ورسٹی، فیصل آباد میں صدر شعبۂ اُردو، ایک محقق، نقاد،اور فکشن نگار ہیں۔اِس وقت اُن کا شمار اہم فکشن نگاروں میں ہوتا ہے۔ طاہرہ اقبال نے چار افسانوی مجموعے سنگ بستہ، ریخت، گنجی بار، ایک ناولٹ مٹی کی سانجھ، نگین گم گشتہ سفر نامے تنقیدی کتب منٹو کااسلوب، پاکستانی اُردو افسانہ اور دو ناول نیلی بار اور گراں لکھے ہیں۔ اُن کے افسانے دیگر فکشن نگاروں کی نسبت قدرے طویل ہوتے ہیں کیوں کہ وہ اکثر دیہات کے پس منظر…

Read More

اکرم کنجاہی ۔۔۔ جب بھی تتلی نے کسی پھول پہ پَر چھوڑ دیا

جب بھی تتلی نے کسی پھول پہ پَر چھوڑ دیا اشک بے کل نے مری آنکھ کا گھر چھوڑ دیا درد و احساس بھی لشکر ہے کہ جس نے، اکثر کرکے دل زار مرا زیر و زبر چھوڑ دیا خود کو پتوں میں چھپاتے ہیں وہ پنچھی ، جن کو آگ جنگل میں لگی کاٹ کے پر چھوڑ دیا میرے یاروں کی طرح تیز ہوا میں دیکھو خشک پتّوں نے ثمربار شجر چھوڑ دیا ضعفِ بازو نہ سمجھ اور محبت پہچان تیغ نفرت کی بھی چھوڑی تھی تبر چھوڑ دیا…

Read More

اکرم کنجاہی ۔۔۔ شہناز شورو (مضمون)

شہناز شورو یہ الفاظ افسانہ نگار ڈاکٹر شہناز شورو کے ہیں: ’’افسانہ ابتدا ہے، افسانہ انتہا ہے،افسانہ قاتل ہے، افسانہ مقتول ہے، افسانہ بنائے زندگی، افسانہ بقائے زندگی، افسانہ راز، افسانہ بے خودی، افسانہ ہوش مندی، افسانہ نگاہ، افسانہ نشتر، افسانہ واردات، افسانہ خلق اور افسانہ خدا ہے۔‘‘ اِن الفاظ سے افسانہ نگار کی سوچ اور فکر کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔یہ ایک ایسے تخلیق کار کی سوچ ہے جو افسانہ نگاری کوکارِ بیکارخیال نہیں کرتا۔اُن کے نزدیک افسانہ زندگی اور بقائے زندگی ہے۔ افسانہ ہوش مندی سے ناسوروں…

Read More

اکرم کنجاہی ۔۔۔ شمع خالد (تعارفی نوٹ)

شمع خالد شمع خالد ۳؍ اپریل ۱۹۴۷ ء کے روز راول پنڈی میں پیدا ہوئیں۔ بہت عرصہ تک ریڈیو پاکستان میں سینئر پروڈیوسر کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔چوں کہ ریڈیو سے وابستہ رہی ہیں تو بچوں کی کہانیاں اور ڈرامے بھی لکھے۔قلم سے رشتہ استوار کیے اُنہیں کئی دہائیاں بیت چکی ہیں اور اُن کا شمار کہنہ مشق فکشن نگاروں میں کیا جاتا ہے۔مزید براں ایک معروف کالم نگار بھی ہیں۔اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’پتھریلے چہرے‘‘ کے نام سے ۱۹۸۲ء میں منظر عام پر آیا۔ بعد ازاں…

Read More

اکرم کنجاہی ۔۔۔ تنویر انور خان ( مضمون)

تنویر انور خان کراچی میں مقیم معروف افسانہ نگار تنویر انور خان ایک میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔اُن کے شریکِ حیات ڈاکٹر محمد انور خان بھی ایک با ذوق شخصیت اور جانے پہچانے آئی سرجن ہیں۔حال ہی میں اُن کی دو تازہ افسانوی کتب کانچ کے ٹکڑے اور ٹوٹا پتہ کے نام سے منظر عام پر آئی ہیں۔ قبل ازیں اُن کے آٹھ افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں زنجیریں، پرچھائیں اور عکس، پانی کا بلبلہ،میت رے،ہلالی کنگن، بے قیمت،شگون کے پھول، وہ کاغذ کی کشتی، وہ بارش کا پانی…

Read More

اکرم کنجاہی ۔۔۔ حمیرا رحمان (مضمون)

حمیرا رحمان ۱۹۷۰ء کے عشرے میں ادبی منظر نامے پر ابھرنے والی شاعرات میںسے ہیں۔کالج کے مشاعرے اورریڈیو پاکستان ملتان سے بی بی سی اور پھر وہاں سے ہوتی ہوئیں نیو یارک میں جا بسیں۔ ایک شاعرہ کی حیثیت سے تیزی سے ادبی منظر نامے پر ابھری تھیں مگر امریکا منتقل ہو گئیں۔اُن کا پہلا مجموعۂ غزل و نظم ’’اندمال‘‘ ۱۹۸۵ء میں اشاعت پذیر ہوا۔ جب کہ ’’انتساب‘‘ (۱۹۹۷ء) میں منظر عام پر آیا۔انہوں نے لہجے اوراسلوب کو بر قرار رکھا۔ کہا جا سکتا ہے کہ شعر گوئی میں ایک…

Read More

اکرم کنجاہی ۔۔۔ ڈاکٹر راحت افشاں (مضمون)

ادب اور تاریخ کا رشتہ زندگی کا اصول اصلی حرکت اور تغیر ہے۔ اس حرکت و تغیر کے حالات کو مرحلہ وار قلم بند کرنا تاریخ ہے۔ تغیر کی دو سطحیں ہوتی ہیں۔ پہلی سطح پر تغیر ذہنِ انسانی سے آزاد خارجی دنیا میں اپنے طور پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ مثلاً رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات کا ہونا، موسموں میں معمول کے مطابق تبدیلی آنا اور اسی طرح کی بے شمار تبدیلیاں ہیں جو نوعِ انسانی کو متاثر کرتی ہیں۔ خارجی دنیا کی یہ تبدیلیاں…

Read More