اکرم کنجاہی ۔۔۔ حمیرا رحمان (مضمون)

حمیرا رحمان

۱۹۷۰ء کے عشرے میں ادبی منظر نامے پر ابھرنے والی شاعرات میںسے ہیں۔کالج کے مشاعرے اورریڈیو پاکستان ملتان سے بی بی سی اور پھر وہاں سے ہوتی ہوئیں نیو یارک میں جا بسیں۔ ایک شاعرہ کی حیثیت سے تیزی سے ادبی منظر نامے پر ابھری تھیں مگر امریکا منتقل ہو گئیں۔اُن کا پہلا مجموعۂ غزل و نظم ’’اندمال‘‘ ۱۹۸۵ء میں اشاعت پذیر ہوا۔ جب کہ ’’انتساب‘‘ (۱۹۹۷ء) میں منظر عام پر آیا۔انہوں نے لہجے اوراسلوب کو بر قرار رکھا۔ کہا جا سکتا ہے کہ شعر گوئی میں ایک فکری و اسلوبیاتی تسلسل رہا۔ اندمال کی شاعری عمومی طور پر تجریدی و علامتی اور قدرے سپاٹ کہی گئی:
آئنے خوابوں سے سرگوشیاں کرتے ہیں
شعور و لاشعور کے مراسم تیور بدلتے ہیں
٭
ہم آگہی کی توانائی کے حصار میں ہیں
درونِ ذات کوئی بے تکان بولتا ہے
اُنہوں نے مشرق و مغرب کی تہذیبی روایت کو رد نہیں کیا صرف خیر کا اثبات کرتی رہی ہیں۔ ایک طرف اپنے آدرشوں کا احترام کیا تو دوسری طرف جہاں کہیں زندگی گریز اور حیات سوز انسانی رویے نظر آئے اور محسوس ہوئے، اُس پر لکھا ہے:
حمیرا اِس میں مجھے سوچنا نہیں پڑتا
مرے عمل سے مرا خاندان بولتا ہے
٭
ساعتوں کے گزرنے کا بے نام یہ سلسلہ دیکھنا
اپنے آدرش سے ٹوٹ کر کون باقی رہا دیکھنا
وہ روایتی اسالیب، بحور اور لفظیات سے اجتناب کرتی ہیں، بعض نئی تراکیب، استعارے اور ردیفیں برتی ہیں، نئی زمینوں میں شعر گوئی کی ہے۔ وہ زحافات کا استعمال بھی کرتی ہیں۔نئی ایجادات و اختراعات سے ہم آہنگ ہونے میں کچھ وقت لگتا ہے۔اُن کے کلام میں گھر کی آنکھ، دھوپ کا ٹکڑا،رویوں کاگرداب، بینائیوں کا شور،ربط کا خیمہ،دستک کے خواب، آہٹ کی خاموشی، آگہی کے غار،تہمتوں کے چہرے،خواب کی دھوپ، سوچ کابادل،آدرشوں کا جنگل،فاصلوں کا اندھیرا جیسی خوب صورت اور نئی نئی ترکیبیں پڑھنے میں آتی ہیں:
اتنی وضاحت کیا کہ شکل دکھائی دے
باتوں میں تھوڑا ابہام ضروری ہے
٭

Related posts

Leave a Comment