اکرم کنجاہی ۔۔۔ ڈاکٹر راحت افشاں (مضمون)

ادب اور تاریخ کا رشتہ

زندگی کا اصول اصلی حرکت اور تغیر ہے۔ اس حرکت و تغیر کے حالات کو مرحلہ وار قلم بند کرنا تاریخ ہے۔ تغیر کی دو سطحیں ہوتی ہیں۔ پہلی سطح پر تغیر ذہنِ انسانی سے آزاد خارجی دنیا میں اپنے طور پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ مثلاً رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات کا ہونا، موسموں میں معمول کے مطابق تبدیلی آنا اور اسی طرح کی بے شمار تبدیلیاں ہیں جو نوعِ انسانی کو متاثر کرتی ہیں۔ خارجی دنیا کی یہ تبدیلیاں انسانی شعور میں تبدیلیوں کا سبب بنتی ہیں۔ شعور کی تبدیلیاں تہذیب و ثقافت اور ادب و فنون میں تبدیلیوں اور ارتقا کو ممکن بناتی ہیں۔ ذہنِ انسانی سے آزاد تبدیلیوں کو قلم بند کرنا عمومی تاریخ کا فریضہ ہے، جب کہ شعور کی تبدیلیوں کے مظاہر کا تجزیہ اور ان کو محفوظ کرلینا ثقافتی تاریخ کا حصہ ہے۔ تاریخِ ادب ثقافتی تاریخ کے سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے مشہور جرمن وجودی فلسفی جیسپرس نے تاریخ کو ایک مسلسل عملیت (Continuous Activity) کا نام دیا ہے۔ جیسپرس سے پہلے ہیگل نے اپنے فلسفۂ جدلیات میں انسان کی شناخت اس کی تاریخ کو بتایا ہے۔ اس کے خیال کے مطابق مخصوص اندازِ نظر ایک خاص مدت تک اپنی اہمیت برقرار رکھتا ہے، پھر اس اندازِ نظر کا تضاد ابھرتا ہے جس کے بعد تیسرا اندازِ نظر پیدا ہوتا ہے جس میں تضاد کا حل ہوتا ہے۔ ہیگل نے اس جدلیات کا سرچشمہ شعور کو بتایا ہے۔ ہیگل کے بعد کارل مارکس نے اس نظریہ کو منقلب کرکے شعور کے بجائے تبدیلیوں کا سرچشمہ معاشرتی حالات اور پیداواری نظام کو بتایا ہے۔ بہرحال یہ دونوں مفکر تاریخ کے تسلسل کو انسان کی شناخت کی اساس ٹھہراتے ہیں۔ آج کل کے وجودی مفکر تاریخ کی اہمیت سے انکار کرتے ہیں۔ چناںچہ وجودیوں کے ابتدائی مفکر کرکے گار (Kieke Gaard) نے تاریخِ انسانی کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انسان کا مسئلہ تاریخِ انسانی نہیں بلکہ خود انسان ہے۔ اس انکار کا نتیجہ وہ ادبی رجحان ہے جسے جدیدیت کہتے ہیں اور جس کی شاہکار تخلیقات بھی انتشار اور گھٹن سے اپنا دامن نہیں بچاسکیں۔ اس تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ادب اور تاریخ کا چولی دامن کا ساتھ ہے تاریخ سے نظریں چرا کر ادب سے زیادہ انتشار اور بحران کی صورت گری تو ممکن ہے لیکن ادب کا صحیح مقصد یعنی مثبت نشاط انگیزی کا حصول محال ہے۔
ہر زبان و ادب کی ایک روایت ہوتی ہے یہ روایت زبان کے معاشرتی اور معاشی حالات کی ہم آہنگی میں تشکیل پاتی ہے ،چناںچہ کسی زبان کا مزاج سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان معاشرتی اور معاشی حالات کا وقوف حاصل کریں جن میں زبان پروان چڑھی ہے۔ ادب میں وسیلۂ اظہار الفاظ ہوتے ہیں، لہٰذا الفاظ کی مزاج دانی کے بغیر ادبی تخلیق کا صحیح طور پر موثر اور دل نشیں ہونا ممکن نہیں۔ آج کل نئی لسانیات اور نئی لفظیات کی تشکیل کا بڑا چرچا ہے لیکن کیا یہ کام بغیر تاریخی شعور کے ممکن ہے۔ مثلاً افتخار جالب، انیس ناگی اور ظفر اقبال وغیرہ نے اس سلسلے میں کچھ تجربات کیے ہیں لیکن ان کے تجربات میں سے کوئی ایک تجربہ بھی مقبولیت حاصل نہیں کرسکا۔ آخر کیوں؟ ہمارے خیال میں اس کا سبب تاریخی شعور سے بے تعلقی ہے۔ آخر ولیؔ دکنی سے داغؔ تک اور غالبؔ سے اقبالؔ تک لسانی تبدیلیوں اور نئی لفظیات کے تجربوں کو بھی تو اجتماعی طور پر قبول کیا گیا ہے۔
دنیا کی ہر زبان کے ادب کی ایک تاریخ ہے اور اس تاریخ کو قلم بند کرنے پر خاطر خواہ توجہ دی گئی ہے۔ اردو زبان میں اس کا آغاز تذکروں سے ہوا۔ پہلے اردو زبان کے شعرا کا تذکرہ فارسی میں لکھا گیا اور پھر رفتہ رفتہ یہ تذکرے اردو زبان ہی میں لکھے جانے لگے۔ ان تذکروں پر ایک عام اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ان میں معاشرتی کوائف سے غفلت برتی گئی ہے۔ اس اعتراض میں وزن ضرور ہے لیکن یہ بات درست نہیں کہ ان میں اس گوشہ کو بالکل ہی نظر انداز کردیا گیا ہے، جب کہ میر تقی میرؔ کی نکات الشعرا ہو یا کوئی اور تذکرہ، تاریخی کوائف سے کسی نہ کسی حد تک اپنا رشتہ ضرور برقرار رکھتے ہیں۔ اردو زبان میں لکھا ہوا مولانا محمد حسین آزاد کا تذکرہ آب حیات تو اس سلسلے میں خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ ان تذکروں کے علاوہ اردو زبان کی باقاعدہ تاریخی تصانیف میں رام بابو سکسینہ، حامد حسن قادری اور ڈاکٹر اعجاز حسین کی تالیفات کو بڑی اہمیت حاصل ہے، لیکن یہ سب تاریخیں بھی تشنہ ہیں۔ البتہ ڈاکٹر جمیل جالبی کی تاریخِ ادبِ اردو، جس کی پانچ جلدیں شائع ہوچکی ہیں، ثقافتی اور معاشرتی تاریخ کے انداز پر لکھی گئی ہے۔ یوں پڑھنے والوں کی وہ تشنگی اور کمی جو پچھلی تاریخوں کے حوالے سے تھی، بہت حد تک پورا کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے کیوںکہ جامع ادبی تاریخ کی عدم موجودگی میں ادبی روایات کا رچاؤ ممکن نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ادبی تخلیقات کے ارتقا کا سفر سست پڑ جاتا ہے۔
یہ تو ادب کے سلسلے میں تاریخ کی اہمیت کی بات تھی لیکن اس کا یہ عمل یک طرفہ نہیں ہے کیوںکہ تاریخ کو سمجھنے کے لیے عصری شعر و ادب پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ بہت سی باتیں بالکل غیر ذمہ دارانہ طور پر مشہور کردی جاتی ہیں، اور بہت سے مورخ ان کو تاریخ میں شامل بھی کرلیتے ہیں۔ ان کی ماہیئت معلوم کرنے کے لیے ماخذوں کی تلاش ہوتی ہے۔ ان ماخذوں میں عصری شعر و ادب کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ تاریخ کے علما نے تاریخ نویسی کے لیے روایت کے علاوہ درایت کی اہمیت پر بھی زور دیا ہے اور درایت کے عمل میں عصری ادب کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ ہماری تاریخ میں بہت وقائع نویس گزرے ہیں جنھوں نے سرکاری درباری مصلحتوں کے پیشِ نظر یا بعض نے صرف منقولات پر بھروسہ کرکے واقعات کو غلط طور پر پیش کردیا ہے۔ ہم ان میں سے بہت سے واقعات کی تصحیح کے لیے عصری ادب پر توجہ دیتے ہیں۔ تو بہت غلطیاں اور غلط فہمیاں درست ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح بہت سی خود نوشتوں اور سوانح عمریوں میں واقعات کو موضوعی (Subjective) انداز میں بیان کیا گیا ہے جس کی وجہ سے حقائق پر جذبات کا غلبہ ہوگیا ہے۔ ایسی صورت میں بھی ہمیں عصری ادب سے مدد مل سکتی ہے اور ہم معروضی طور پر حقیقت کا سراغ لگا سکتے ہیں۔ تاہم تاریخ نویسی کے لیے مورخ کا معروضہ (Subjective) ہونا پہلی شرط ہے۔
مختصر یہ کہ تاریخ کو ادب سے یا ادب کو تاریخ سے جدا کرنا محال بھی ہے اور غیر مفید بھی۔ تاریخی شعور کے بغیر ادب سکڑ کر رہ جاتا ہے اور اکثر اوقات وہ انتشار، گھٹن اور مہملیت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس طرح ادبی ارتقا کی آگہی اور ادبی روایت کے شعور کے بغیر تاریخ میں بہت سے غیر تاریخی عناصر شامل ہوجاتے ہیں۔ ان عناصر سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہمیں ادبی شواہد کی ضرورت پیش آتی ہے اور اس تعلق کے پیش نظر ادب و تاریخ کو لازم و ملزوم کہہ سکتے ہیں۔

Related posts

Leave a Comment