اکرم کنجاہی ۔۔۔ جب بھی تتلی نے کسی پھول پہ پَر چھوڑ دیا

جب بھی تتلی نے کسی پھول پہ پَر چھوڑ دیا
اشک بے کل نے مری آنکھ کا گھر چھوڑ دیا

درد و احساس بھی لشکر ہے کہ جس نے، اکثر
کرکے دل زار مرا زیر و زبر چھوڑ دیا

خود کو پتوں میں چھپاتے ہیں وہ پنچھی ، جن کو
آگ جنگل میں لگی کاٹ کے پر چھوڑ دیا

میرے یاروں کی طرح تیز ہوا میں دیکھو
خشک پتّوں نے ثمربار شجر چھوڑ دیا

ضعفِ بازو نہ سمجھ اور محبت پہچان
تیغ نفرت کی بھی چھوڑی تھی تبر چھوڑ دیا

دل وہ بچہ ہے جسے میلے میں لایا، کوئی
اور تنہا بھی کیا ، فرد و بشر چھوڑ دیا

میں نے ہر سانس بنالی ہے یہ نائو ، کہ تو نے
موج در موج مسافت میں بھنور چھوڑ دیا

Related posts

Leave a Comment