اکرم کنجاہی ۔۔۔ شہناز شورو (مضمون)

شہناز شورو

یہ الفاظ افسانہ نگار ڈاکٹر شہناز شورو کے ہیں:
’’افسانہ ابتدا ہے، افسانہ انتہا ہے،افسانہ قاتل ہے، افسانہ مقتول ہے، افسانہ بنائے زندگی، افسانہ بقائے زندگی، افسانہ راز، افسانہ بے خودی، افسانہ ہوش مندی، افسانہ نگاہ، افسانہ نشتر، افسانہ واردات، افسانہ خلق اور افسانہ خدا ہے۔‘‘
اِن الفاظ سے افسانہ نگار کی سوچ اور فکر کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔یہ ایک ایسے تخلیق کار کی سوچ ہے جو افسانہ نگاری کوکارِ بیکارخیال نہیں کرتا۔اُن کے نزدیک افسانہ زندگی اور بقائے زندگی ہے۔ افسانہ ہوش مندی سے ناسوروں میں اُتارا گیا نشتر ہے۔اب اگر ہم شہناز شورو کی فکر کا جائزہ لیں تو یہ کہنے میں چنداں رکاوٹ نہیں کہ اُن کی بیشتر کہانیاں ایک ایسے سماج، ماحول اور، معاشرے کا گھناؤنا چہرہ اور تشخص ہمارے سامنے لاتی ہیں جہاں عورت کو برابر کا شہری اور انسان سمجھنے کی بجائے اُسے جذبات سے عاری کوئی بے زبان جانور خیال کیا جاتا ہے۔اُن کا کہانی کہنے کا فن عورت کے حقوق کے استحصال،اُن کی امنگوں، آرزؤں اورتمناؤں کی بے ثمری۔اُن کے جذباتی، دینی اور جنسی استحصال کے گرد گھومتا ہے۔ ایک موضوع کے طور پر عورت اُن کا بنیادی حوالہ بھی ہے اور مسئلہ بھی۔اُن کے یہاں سارا مسئلہ عورت کی شناخت اوراس کے حقوق کا ہے۔لہٰذا شہناز شورو کی کہانیوں میں اُن کی حیثیت کو مرد کی کنیز کے طورپر متعین کرنے کی روایت کے خلاف احتجاج بھر پورہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ مزاحمتی رویوں کی تخلیق کار ہیں۔اُن کے افسانے بلند آہنگ بھی ہیں اور توانا احتجاج بھی۔وہ ترقی پسند ی کے دورِ زوال میں ہیں مگر اُن کے ہاں احتجاج کا لب و لہجہ، جرأتِ اظہار، بلند ہمتی اور بے خوفی وہی ہے جو ترقی پسندوں کا خاصا تھی مگر ایک فرق ضرور ہے کہ اُن کے افسانے محض بے رنگ و بے کیف اظہاریہ نہیں ہیں، اُنہوں نے لا شعوری و وجدانی کیفیات، داخلی ہیجان اور خود کلامیوں کو ایک ترتیب سے افسانے میں ڈھالا ہے جس سے نگارشات فنی جمالیات سے آراستہ نظر آتی ہیں۔
شہناز شورو (پ ۱۹۶۹ء) کا تعلق پاکستان کے صوبہ سندھ سے ہے۔اُن کے دو افسانوی مجموعے‘‘لوگ، لفظ اور انا’’اور‘‘زوال دکھ’’اشاعت پذیرہو چکے ہیں۔ ۱۹۸۲ء میں انھوں نے روزنامہ’’امن‘‘سے لکھنے کا آغاز کیا۔ ان کے افسانے ماہ نامہ صریر، پہچان،تسطیر اور سمبل میں شائع ہوے رہے۔اِب دنوں بیرون ملک مقیم ہیں۔ ایک اقتباس دیکھیے:
’’مجھے معلوم ہوا کہ تم نے پھر Abortionکروا لیا ہے۔ تم…تم کیا چاہتی ہو آخر میں بپھر گیا۔
بچے کیوں نہیں چاہتیں تم۔ میں چاہتا ہوں اپنی شناخت…
شناخت کا لفظ زہر بن گیا ہے تمہارے ہونٹوں پر…
’’تم شناخت نہیں ملکیت چاہتے ہو۔ جسے تم اپنی مرضی سے خرید و فروخت کرسکو۔ حکم چلا سکو۔ حکم عدولی کی سزا دے سکو اور اپنے ماضی کو ان میں زندہ دیکھو…اس سے زیادہ کچھ نہیں۔‘‘
’’تم نہیں جانتیں اولاد کیا ہوتی ہے۔ کتنا سرور ہوتا ہے اس لفظ میں…‘‘
’الیوژن‘ سے ایک اقتباس دیکھیے جو تخلیق کار کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے:
’’عورت ہر دور میں غلام نہیں رہی ہے۔ قدیم تواریخ کا مطالعہ کرو گے تو معلوم ہوگا کہ عورت حکمراں رہی ہے۔ مادری سماج میں عورت کے نام سے اولاد پہچانی جاتی تھی۔ وہ سربراہ ہوا کرتی تھی۔ یہ تو بدلتے ڈھلتے سماج اور معاشرے نے اپنی حالت تبدیل کی تو پھر مرد کو عورت پر بالا دستی حاصل ہوگئی۔ کیا تم وہ دور پسند کرتی ہو جہاں عورت تو بالادست ہے مگر نہ تو اس کی شناخت ہے نہ اہمیت…نہ اسے معلوم ہے کہ اس کی کوکھ سے پیدا ہونے والے بچے کا باپ کون ہے…وہ مختلف مردوں کے ساتھ ہم بستری کیا کرتی تھی۔ کیا آزادی اور برتری اسی کا نام ہے؟
عورت تعجب زدہ ہوکر بولی۔
اس دور میں بچے کی ماں اہم تھی، باپ نہیں، آج عورت زیردست ہے اور اس کی کوئی شناخت، کوئی اہمیت اور کوئی حیثیت نہیں ہے…تو پھر وہی دور کیوں نہ ہو؟ اور کیا اب بھی ایک عورت کو دس دس مرد ہم بستری کے لیے نہیں رکھتے؟ کم از کم قدیم دور میں وہ اپنی مرضی سے تو وقت مقرر کرسکتی تھی کہ کتنی راتیں ہیں اور کتنے مرد…اور آج جبر کا یہ حال ہے کہ ایک رات میں اس کا ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے پھر یا قبر اس کا مقدر بنتی ہے یا پھر معاشرے کے الاؤ میں ایندھن بن کر جینا پڑتا ہے۔‘‘
٭…

Related posts

Leave a Comment