عصرِ رواں کا نمایندہ تنقید نگار: اکرم کنجاہی ۔۔۔ شاعر علی شاعر

عصرِ رواں کا نمایندہ تنقید نگار: اکرم کنجاہی

جناب اکرم کنجاہی سے میری پہلی ملاقات نیشنل بینک آف پاکستان، کراچی میں منعقدہ ایک مشاعرے میں ہوئی۔ دو تین ملاقاتوں کے بعد اُن کا چوتھا شعری مجموعہ ’’دامنِ صد چاک‘‘ اپنے اشاعتی ادارے ’’رنگِ ادب پبلی کیشنز، کراچی‘‘ سے شایع کرنے کی سعادت بھی ملی۔ دامنِ صد چاک سے قبل اُن کے تین شعری مجموعے ’’ہجر کی چتا‘‘، ’’بگولے رقص کرتے ہیں‘‘ اور ’’محبت زمانہ ساز ہے‘‘ شایع ہو چکے تھے۔ دامنِ صد چاک کو دنیائے اُردو ادب میں اتنی پذیرائی ملی کہ اُس کی شہرت کی گونج ابھی تک سنائی دے رہی ہے۔ شاعرِ موصوف کی شاعری سے متاثر ہو کر میں نے ایک مضمون ’’نئی نسل کا نمایندہ شاعر … اکرم کنجاہی‘‘ لکھا تھا جو میرے تنقیدی مضامین کی کتاب ’’تنقیدی آئینے‘‘ میں شامل ہوا۔ بہ حیثیت شاعر جناب اکرم کنجاہی پر چند سطور ملاحظہ ہوں:
’’دامنِ صد چاک میں شامل کلام پڑھنے کے بعد یہ بات بلاخوفِ تردید لکھ رہا ہوں کہ جناب اکرم کنجاہی عہدِ حاضر میں نئی نسل کے نمایندہ شاعر ہیں، یہ ضروری نہیں ہوتا کہ نئی نسل کی نمایندگی کرنے والا شاعر اِسی نئی نسل سے تعلق رکھتا ہو بلکہ نئی نسل کا شاعر اُسے کہا جاتا ہے جو نئی نسل کے لیے لکھ رہا ہو، نئی نسل کی زندگی کے تقاضوں سے اُس کی شاعری ہم آہنگ ہو، اور نئی نسل کی خواہشات، ارمان، اُمنگیں، حسرتیں اورسماجی ضروریات کا ذکر اُس کی شاعری میں بہ درجہ اتم ہو، نئی نسل کا نمایندہ شاعر اپنی شاعری کے ذریعے نئی نسل کی راہ نمائی کرتا ہے، اُن کی پسند اور نا پسند کا خیال رکھتا ہے، اُس لہجے اور پیرائے میں بات کرتا ہے جس کو اُس دور کی زبان کہا جاتا ہے، اپنی بات کے ابلاغ و ترسیل کے لیے وہ اُس انداز اور طرز کو اختیار کرتا ہے جو آسان فہم، زود اثر اور دل میں اُترنے کے ساتھ ساتھ جلد اور آسانی سے سمجھ آجانے والی ہو، اِس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ جناب اکرم کنجاہی کی شاعری میں مذکورہ بالا لوازمات، خصوصیات اور اوصاف کا زیادہ ترحصہ موجود ہے، اِسی لیے میں نے اُن کو نئی نسل کا نمایندہ شاعر لکھا ہے۔‘‘
چارشعری مجموعہ ہائے کلام کے ساتھ ساتھ وہ اپنی نثری کاوشیں ’’اُصولِ تقریر‘‘ اور ’’فنِ خطابت‘‘ جیسی کتابیں بھی دامنِ اُردو ادب میں ڈال کر اُسے مالا مال کر چکے تھے۔ اِن کتابوں کے نئے ایڈیشنز آج بھی الحمد پبلی کیشنز، لاہور سے مسلسل شایع اور فروخت ہو رہے ہیں۔
اکرم کنجاہی صاحب کا تعلق شعبۂ بینکاری سے ہے اور وہ نیشنل بینک آف پاکستان، کراچی میں Audit Chief کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔ یہ ذکر اِس لیے بھی کر دیا ہے کہ اکرم کنجاہی صاحب نے اپنے شعبے سے متعلق دو کتابیں Internal Audit in Banks اور An insight into the banking frauds کے عنوان سے لکھی تھیں جن کے اوّلین ہونے کا اعزاز بھی اُنھیں حاصل ہوا ہے۔ اِن کے علاوہ جناب اکرم کنجاہی نے تین کتابیں مرتب و مدون بھی کی ہیں جن میں ’’امن و امان و قومی یک جہتی (انتخابِ نظم)‘‘، ’’رضیہ فصیح احمد کے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ (مضامین)‘‘ اور ’’جوہرِ عروض (آغا صادق کی علمِ عروض پر کتاب) ‘‘ شامل ہیں۔
وقت کا پرندہ اپنی طاقتِ پرواز دکھاتا اور زمانوں کی سیر کراتا رہا۔ وقت گزرنے اور موسم بدلنے کے ساتھ ساتھ جناب اکرم کنجاہی کے افکار و خیالات میں بھی تغیرات پیدا ہوئے جو نہ صرف خوش آیند تھے بلکہ آنے والی نسل کے لیے قابلِ استفادہ بھی۔ اُنھوں نے فی زمانہ حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنی شاعری کو ثانوی حیثیت دی اور تنقید نگاری کو اوّلیت کے درجے پر لے آئے۔ دو سال تک اُنھوں نے فیس بک پر لکھ دیا کہ اُنھیں مشاعروں اور اُن میں صدارت کے لیے مدعو نہ کیا جائے۔ اِس دوران اُنھوں نے تنقیدی کتب کا نہ صرف مطالعہ کیا بلکہ یہ سوچا کہ قارئینِ شعر و سخن، ناقدینِ فنِ شاعری، مشاہیرِ اُردو ادب اور طالبانِ علم و ادب کو کس قسم کے مواد کی اشد ضرورت ہے جس سے اُن کی تعلیمی قابلیت میں اضافہ ہو، اور شخصیت میں نکھار پیدا ہو سکے۔ اُنھوں نے یہ بھی دیکھا کہ تنقید کا میدان ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر انور سدید، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر اجمل نیازی اور ڈاکٹر سید شبیہ الحسن رضوی کے بعد خالی خالی نظر آنے لگا ہے۔
جو نقاد بہ قیدِ حیات ہیں وہ اپنی پیرانہ سالی کے سبب تازہ تخلیقات خلق کرنے سے قاصر ہیں اور ویسے بھی پروفیسر جاذب قریشی کے علاوہ دیگر ناقدین نے اپنی زندگی میں کون سے کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہوئے ہیں۔ ایسے میں جناب اکرم کنجاہی نے اپنی تمام تر توجہ تنقید نگاری کی طرف مبذول کی تو مختصر مدت میں اُن کی تخلیق کردہ متعدد تحقیقی و تنقیدی کتب نہ صرف زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئیں بلکہ آج تک قارئینِ شعر و سخن، ناقدینِ فنِ شاعری اور مشاہیرِ اُردو ادب سے داد و تحسین وصول کر رہی ہیں۔ اِن کتابوں میں:
۱۔ راغب مراد آبادی …چند جہتیں
۲۔ نسائی ادب اور تانیثیت
۳۔ لفظ، زبان اور ادب
۴۔ غزل کہانی
۵۔ مابعد جدیدیت اور چند معاصر متغزلین
۶۔ پسِ جدیدیت لہجے اور اُسلوب
شامل ہیں۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عصرِ رواں کے اِس نمایندہ تنقید نگار کا سوانحی تعارف اور6؍ اہم تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ پیش کیا جائے:
۱۔ راغب مراد آبادی … چند جہتیں
راغب مراد آبادی جناب اکرم کنجاہی کے اُستادِ محترم ہیں، لہٰذا اُنھوں نے اپنے اُستادِ محترم کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا یہ طریق اختیار کیا کہ اُن کی زندگی، فن اور ادبی خدمات پر ایک دفتر لکھ کر کتابی صورت میں دنیائے اُردو ادب کے سامنے پیش کر دیا، جس کا نام’’ راغب مراد آبادی … چند جہتیں‘‘ رکھا۔ اِس کتاب کا پہلا ایڈیشن 2001ء اور دوسرا 2020ء میں شایع ہوا۔ میرے زیرِ نظر 2020ء کا ایڈیشن ہے۔ اِس میں اکرم صاحب نے جہاں راغب صاحب کے شعری سفر کو پانچ ادوار میں پیش کیا ہے وہاں راغب صاحب سے اپنی ملاقات اور شاگرد بننے کے بعد کے حالات و واقعات بھی قلم بند کیے ہیں۔ بعد ازاں راغب بہ حیثیت رباعی گو، ان کے منظوم سفرنامے، فن، شخصیت، مختصر سوانح، اکتسابِ فیض، چند شعری محاسن، سماجی، علمی اور ادبی خدمات، اہم علمی و ادبی موضوعات کے عنوانات سے ابواب بنائے ہیں اور آخری میں راغب صاحب کا سوانحی خاکہ پیش کیا ہے۔ ایک ادیب و شاعر اپنے اُستاد کو اس سے بہتر اور کیا خراجِ تحسین پیش کر سکتا ہے۔
یہ کتاب راغب مراد آبادی صاحب کے فن و شخصیت اور اُن کی ادبی خدمات کا مکمل مطالعاتی جائزہ پیش کرتی ہے۔ اِس کے مطالعے سے راغب صاحب کے تمام ادبی پہلو سامنے آ جاتے ہیں۔ کسی شاعر کی زندگی، فن اور ادبی خدمات کو اِس طرح یک جا کرنا دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔
۲۔ نسائی ادب اور تانیثیت (تحقیق و تنقید)
نسائی ادب کے حوالے سے جناب اکرم کنجاہی کایہ کارِ ادب سراہے جانے کے لائق ہے کیوںکہ نسائی ادب کے حوالے سے کئی کتب لکھی گئیں، مگر جس طرح اکرم کنجاہی صاحب نے اِس ضخیم کتاب کا مواد سپردِ قلم کیا ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔ اِس میں اُنھوں نے نسائی شاعری کا ارتقا نسائی فکشن کاارتقا، نسائی فکشن پر مضامین و مقالے پیش کیے ہیں جن میں پاکستان کی اہم شاعرات، افسانہ و ناول نگار خواتین پر سیرِ حاصل گفتگو کو سپردِ قلم کیا ہے۔ اِس کتاب کا پیش لفظ معروف شاعر و افسانہ نگار اور صحافی جناب زیب اذکار حسین نے تحریر کیا ہے۔ آیے اُن کے مضمون سے اقتباس ملاحظہ کرتے ہیں:
’’میں ذاتی یا نظریاتی طور پرادب کو خانوں میں بانٹنے کا قائل نہیں ہوں کہ خواتین کے ادبی کام کو تفریق کے ساتھ دیکھنے پر تعصب کا گمان گزرتا ہے، مگر جس سنجیدگی کے ساتھ نسائی ادب کے تاریخی تناظر میں جناب اکرم کُنجاہی نے تانیثیت (یعنی خواتین کے معاشرتی مسائل، سماجی نا انصافی، رسم و رواج کے نام پر ظلم و زیادتی اور جنسی گھٹن) کا جائزہ لیا ہے۔خاص طور پر شاعری میں کشور ناہیداور فہمیدہ ریاض سے لے کر ریحانہ روحی اور عشرت معین سیما تک، اِسی طرح فکشن نگاروں میں رضیہ سجاد ظہیر اور ہاجرہ مسرور سے لے کر شہناز شورو اورسیمیں کرن تک تخلیقات میں تانیثیت پر بات کی ہے،وہ ایک طرف تو خواتین کی ادبی و عملی جدو جہد کی عکاس ہے تو دوسری طرف اکرم کُنجاہی کے وسعتِ مطالعہ کا ثبوت ہے۔اُنھوں نے خواتین کی تخلیقات کو جس انداز میں سراہا ہے میں اُسے Appreciation” Critical ” کہوں گا۔نسائی شاعری اور فکشن کو عہد بہ عہد جس طرح پرکھا گیا ہے اور معاصر ادبی منظر نامے کی چند نمایاں شاعرات اور فکشن نگار خواتین کے فکر و فن پر جس طرح کے مضامین اور مقالے تحریر کیے گئے ہیں،کتاب کے مطالعے کے بعدقاری خود بے ساختہ داد دے گا۔ اِن تنقیدی مضامین میں فاضل محقق نے تاریخِ ادب اور معاصر ادبی منظر نامے کے تناظر میں تخلیق کاروں کی نگارشات کا جائزہ لیا ہے۔فروغ فرخ زاد اور فہمیدہ ریاض وغیرہ کے حوالے سے، کئی مقامات پر ادبی اشاروں سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے، مگر مصنف کی علمی وسعت سے انکار نہیں۔
زیرِ نظر کتاب میں اُنھوں نے ایک طرف تو نسائی فکشن اور شاعری کی تاریخ میں اُبھرنے والی نمایاں ترین خواتین کا احاطہ اپنی عمدہ تنقیدی و تاثراتی بصیرت کے ساتھ کیا ہے تو دوسری طرف متقدمین اور معاصر تخلیق کار خواتین پر اپنے بھر پور مضامین بھی شامل کیے ہیں۔اِس سے پہلے نسائی ادب پر شاید ہی کسی نے اتنا وقیع کام کیا ہو۔ ڈاکٹر سلیم اختر مرحوم اور پروفیسرجاذب قریشی کا کام شاعرات پر ہے، مگر اِس کتاب میں نسائی فکشن بھی زیرِ بحث لایا گیا ہے۔اُنھوں نے اِس ارتقا میں جن فکشن نگاروں پر کام کیا ہے،اُن کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔نذر سجاد حیدر سے بانو قدسیہ تک۔یہ ایسی فکشن نگار ہیں جن پر فکشن کے ناقدین کام کرتے رہے ہیں۔ پھر بشری رحمن، عذرا اصغر،زیتون بانو اور اُن کی معاصرین ہیں جن پر کام ہوا مگر اتنا نہیں کہ جس قدر اُن کا تخلیقی کام ہے مزید براں ہمارے عہد میں کئی ایسی فکشن نگار ہیں جن پر ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔طاہرہ اقبال، نسیم انجم،شہناز شورو،شہناز پروین، تنویر انور خان، سیمیں کرن، شبہ طراز، مسرت افزا روحی،منزہ احتشام گوندل، تزئین راز زیدی،تسنیم کوثر اور صائمہ نفیس وغیرہ۔
اسی طرح شاعرات میں (اگر ہم نسائی شاعری کا ادا جعفری سے آغاز کریں) ادا جعفری سے پروین شاکر تک ناقدینِ فن نے بہت لکھا۔پھر شبنم شکیل، بسمل صابری، یاسمین حمید،شاہدہ حسن، صبیحہ صبا، شہناز مزمل،شاہدہ لطیف ہیں جن پر ابھی کام کی بڑی گنجائش ہے۔آگے بڑھیں تو حمیدہ شاہین، ریحانہ روحی، عنبرین حسیب عنبر ایسی شاعرات ہیں جن پر ابھی بہت کام ہونا باقی ہے۔
اکرم کُنجاہی کئی میدانوں کے شہسوار ہیں۔اگرچہ وہ کسی تحریک یا نظریے کا حصہ نہیں ہیں، مگراُن کی شاعری میں فکری تازگی کے ساتھ ساتھ تخلیقی سچائی ہے۔اُن کا تنقیدی کام اعلیٰ معیار کے ساتھ مقدار میں بھی قابلِ قدر ہے۔‘‘
۳۔ لفظ، زبان اور ادب (تحقیق و تنقید)
سب سے پہلے کتاب’’ لفظ، زبان اور ادب‘‘ کی فہرست ملاحظہ کرتے ہیں جس سے اِس کتاب میں شامل مواد سامنے آتا ہے:
فکریات:
۱۔ تنقید، تیقن کی حقیقت یا گمان کا سراب
۲۔ نسائیت، فیمنزم اور تانیثیت
۳۔ جمالیاتِ فکر و فن
۴۔ لفظ، زبان اور لغت
۵۔ تخیل، جذبہ و احساس اور شعری معیارات
۶۔ نثری نظم کے صنفی مباحث
۷۔ افسانہ اور جدید رجحانات
۸۔ اصطلاحات سازی اور ’’خوش فکری‘‘
۹۔ ادب اور ادیب کے لیے لمحۂ فکریہ
۱۰۔ بے ادبی کا فروغ
خصوصی مطالعات:
۱۔ کلیاتِ شاعر صدیقی
۲۔ منیر صابری کے فکری زاویے
شعریات:
۱۔ شاعرِ رومان (اختر شیرانی)
۲۔ فکری و اُسلوبیاتی تنوع کا شاعر (غلام محمدقاصر)
۳۔ کہانی میری رودادِ جہاں (شکیب جلالی)
۴۔ وجدان سے تجربات کا سفر (رئیس فروغ)
نثریات:
۱۔ آ غا گُل کا ’’دوستیں وڈھ‘‘ (فکشن)
۲۔ افسانوی تجرید اور زیب اذکار حسین (فکشن)
۳۔ وجدانی محسوسات کا افسانوی روپ (فکشن)
۴۔ تخلیقی و تنقیدی وفور سے سرشار… جاذب قریشی (تنقید)
۵۔ کراچی کا آشوب اور اُردو افسانہ (تحقیق و تنقید)
۶۔ ڈاکٹر محسن مگھیانہ کی شگفتہ بیانیاں (فکاہیات)
۷۔ ٹیلی اسکوپک مزاح… یوٹرن کریسی، محمد اسلام (فکاہیات)
۸۔ اشفاق ایاز کی افسانوی مزاح نگاری(فکاہیات)
۹۔ اصغر خان کی ڈائری (فکاہیات)
۱۰۔ انشائیے کی مزاج آشنا… ڈاکٹر ساجدہ سلطانہ(فکاہیات)
حقیقت ہے کہ جناب اکرم کنجاہی نے جہاں تنقید، نسائیت، فکر و فن کی جمالیات، لفظ، زبان اور لغت، تخیل، جذبہ، احساس، شعری معیارات، نثری نظم کے صنفی مباحث، جدید افسانے کے رجحانات، اصطلاحات سازی پر اپنی عمیق نظر ڈالی ہے، وہاں ادیب کے لیے لمحۂ فکریہ، بے ادبی کے فروغ پر بھی توجہ دلائی ہے اور ان کے مضمر اثرات کی نشان دہی بھی کی ہے۔ اِس کتاب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اِس میں پاکستان کے 6؍ بڑے شاعروں، شاعر صدیقی، منیر صابری، اختر شیرانی، غلام محمد قاصر، شکیب جلالی اور رئیس فروغ کی مکمل شاعری پر قلم اُٹھایا ہے اور ان کے محاسنِ سخن کو چن چن کر بیان کیا ہے۔ اِسی طرح آغا گل، زیب اذکار حسین، جاذب قریشی، جام فدا حُسین بھیٹ، محمد اسلام، اشفاق ایاز اور ڈاکٹر محسن مگھیانہ کی نثر کے اوصاف بیان کیے ہیں۔ جناب اکرم کنجاہی کی یہ کاوش متعدد پہلوئوں سے اپنی اہمیت کا احساس دلاتی ہے اِس ضمن میں ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی رائے پیشِ خدمت ہے:
’’اکرم کُنجاہی، کراچی میں تیزو تند ہوا کے جھونکے کی مانند آئے اور یہاںکے علمی و ادبی حلقوں میں ایسے گھل مل گئے جیسے وہ برسوں کے ادبی دوست ہوں۔ ملنسار و ہم درد، خوش اخلاق و خوش گفتار، مجازاً متمدن، خلیق و شفیق، خوش بیان و شیریںسخن انسان ہیں۔ اکرم کُنجاہی صاحب سے میری پہلی ملاقات ایک ادبی تقریب میں ہوئی جسے بہت عرصہ نہیں ہوا۔ یہ تقریب تھی معروف ناول نگار و کالم نگار محترمہ نسیم انجم اور معروف کہانی کار، خاکہ نگار، سید محمد ناصر علی کی کتابوں کی تقریب اجرا جو 2؍مئی 2019ء کے روز کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے زیرِ اہتمام منعقد ہوئی تھی۔ تقریب کی صدارت اکرم کُنجاہی صاحب نے کی تھی جب کہ مجھ ناچیز کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے کتاب پر کچھ کہنا تھا۔ یہاں میں نے اُنھیں پہلی مرتبہ کسی بھی علمی موضوع پر گرجتے اور برستے، شعلہ بیانی کرتے دیکھا۔ خوب بولتے ہیں، اچھا بولتے ہیں، تسلسل اور ربط کے ساتھ بولتے ہیں، موضوع کو مکمل گرفت میں رکھتے ہوئے بولتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ موضوع پر مستعدی اور سج دھج کے ساتھ بولتے ہیں، اُن کا حافظہ ماشاء اللہ غضب کا ہے۔ ‘‘
۴۔ غزل کہانی (تحقیق و تنقید)
اِس کتاب کے عنوان ہی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ اُردو غزل کی کہانی ہے جسے اُردو غزل کے ارتقا سے تاحال بیان کیا گیا ہے، مگر مصنف نے ایک صفحے پر واضح طور پر لکھ دیا ہے کہ ’’غزل کہانی‘‘ کو عہد بہ عہد اُردو غزل کی تاریخ سمجھا جائے جس میں کئی نمایاں شعرأ کا ذکر ضرور آیا ہے، مگر یہ کتاب شعرأ کا تذکرہ نہیں۔
اور حقیقت ہے کہ یہ غزل پر تنقید کی ایک بہترین کتاب ہے جس میں غزل کی ابتدا، دبستانِ دکن، دہلی اور لکھنؤ، میرا اور ان کا عہد، اُردو کا عہد ظفر شاہی، رام پور اور حیدر آباد دکن کی ادبی خدمات، غزل، حالی سے ترقی پسند تحریک تک، اُردو غزل کے عناصرِ اربعہ (اصغر، جگر فانی اور حسرت)، اُردو ادب کی اہم تحریکیں (ترقی پسند تحریک، حلقۂ اربابِ ذوق، نئی شاعری)، نئی غزل کی فنی و فکری جہات، تقسیمِ ہند کے بعد نسائی غزل، غزل میں ہیئت و اُسلوب کے تجربے (آزاد غزل اور اینٹی غزل)، جدید حسیت اور عصری حسیت، مابعد جدیدیت اور نئی نسل کے فکری و اُسلوبیاتی رجحانات کو تفصیل سے پیش کیا گیا ہے۔ معروف ادبی شخصیت جناب نوید صادق نے اِس کتاب کا مقدمہ تحریر کیا ہے۔ آیے اُن کے مقدمے سے اقتباس ملاحظہ کرتے ہیں:
’’اکرم کنجاہی کے وسیع المطالعہ ہونے میں تو مجھے یوں کوئی شبہ نہیںتھا کہ میں اُن کی تصانیف ’’راغب مراد آبادی (چند جہتیں)‘‘،’’ نسائی ادب اور تانیثیت ‘‘، ’’لفظ، زبان اور ادب‘‘ کامطالعہ کر چکا ہوں،لیکن،’’غزل کہانی‘‘ نے تو … بس یوں جانیے کہ میرے دل میں اُن کے علم و فضل کے ناتے اُن کی عزت میں گراں قدر اضافہ کر دیا۔ ’’غزل کہانی‘‘ … واضح کرتا چلوں کہ اُردو ادب میں یہ میرا پسندیدہ ترین موضوع رہا ہے، لہٰذا مسودہ دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اکرم کنجاہی نے اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے ساتھ ساتھ شعر و ادب کو اپنی زندگی میں کتنی اہمیت دے رکھی ہے اور یہ شاید اِس کارن ہے کہ اُن کے بہ قول : ہمارا ادب ہماری تاریخ و تہذیب کا آئینہ ہے اور میرے نزدیک تاریخ و تہذیب ہر حسّاس اور ذی فہم انسان کو عزیز ہوتے ہیں۔
غزل کی ابتدا کی بابت مختصراً بات کرتے ہوئے اُنھوں نے امیر خسروؔ کی غزل، بہمنی دور میں اُردو غزل اور دکن میں اُردو غزل کا جامع احاطہ کیا ہے۔اِس سارے میں ہمیں ولیؔ دکنی اور سراجؔ ؔاورنگ آبادی کی آوازیں زیادہ نکھری اور بھرپور محسوس ہوتی ہیں۔ ولیؔ اور سراجؔ کے ہاں جہاں زبان و بیان کے حوالے سے نمایاں تبدیلی دکھائی دیتی ہے، وہیں موضوعات کا تنوع بھی ملتا ہے۔ گویا غزل اپنے اگلے سفر کے لیے اِن دو غزل گویوں پر انحصار کرتی نظر آتی ہے۔ طولِ کلام سے گریز کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ولیؔ اور سراجؔ غزل کے قدیم و غیر واضح نقوش اوراپنے عروج کے زمانے کے درمیان ایک کڑی ہیں… ایک اہم کڑی، ایک پُل جس سے گزر کر غزل دِلّی میں اپنے عروج کو چھوتی نظر آتی ہے، یہاں پھر ایک کش مکش… واضح رہے کہ کسی بھی چیز کے ارتقا میں کش مکش اور اختلاف و حمایت، نظریات میں اختلافات و ہم آہنگی نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ ایہام گوئی کو ترویج دینے والے شعرأ اور ایہام گوئی کے مخالف چلنے والے …ہر دو اہم ہیں کہ اِس سے غزل ایک ایسے رنگ روپ کی طرف بڑھ رہی تھی جسے محمد رفیع سوداؔ،میرتقی میرؔ او ر میردردؔ جیسے صاحبانِ فن نے مزید چوکھا کرنا تھا۔اِسی عہد کا ایک بڑا نام جسے اکثر تذکرہ نگاروں نے نظر انداز کر دیا، آگرہ میں نظیر اکبر آبادی کا ہے، نظیر اکبر آبادی کی غزل ہو کہ نظم… تجربات کی ایک بھرمار ملتی ہے۔ یوں ہی بات سے بات نکل آتی ہے کہ ہمارے آج کے عہد کے ’’جدید شاعر‘‘ کہلوائے جانے کے متمنی بلکہ شدید متمنی، ایک نظر نظیر کے کلام پر ڈال لیں تو غباروں سے ہوا نکلتے زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ بہرحال اِس باب میں بھی اکرم کنجاہی نے اپنے موضوع سے انصاف کیا ہے اور اہم، کم اہم اور بعض تذکرہ نگاروں اور ناقدینِ فن کے نزدیک غیر اہم غزل گویوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا کہ کہانی… غزل کی کہانی یونہی آگے نہیں بڑھی، اِس میں سب کا ہاتھ ہے، سب کا حصہ ہے، اوّل، دوم، سوم درجے تو تعینِ مقام اور بعض اوقات محض ذاتی پسند و ناپسند کا آئینہ بن کر رہ جاتے ہیں۔
تقسیمِ ہند کے بعد نسائی غزل،غزل کہانی کا ایک اور اہم باب ہے جس میں اداؔجعفری، صفیہ شمیم ملیح آبادی،زہرا نگاہؔ، پروینؔ فنا سید،رابعہ نہاںؔ، کشورؔ ناہید، فہمیدہؔ ریاض،پروینؔ شاکر، شبنمؔ شکیل،بسملؔ صابری،یاسمینؔ حمید،شاہدہؔ حسن،شہنازؔ مزمل، صبیحہ صباؔ،فاطمہؔ حسن،حمیدہؔ شاہین، شاہدہؔ لطیف، ریحانہ روحیؔ،عشرت معین سیماؔ وغیرہ کی شخصیت و شاعری پر مفصل گفتگو کی گئی ہے۔
اُردو غزل میں ہیئت و اُسلوب کے حوالے سے کیے جانے والے تجربات کا بھی فاضل مصنف نے تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔ اِن تجربات کے حق میںاور حمایت میں اُٹھنے والی آوازیں، بیش تر تجربات کی ناکامی کے اسباب… ’’غزل کہانی ‘‘ تمام مباحث کا احاطہ کرتی ہے۔ آزاد غزل،، نثری غزل،اینٹی غزل وغیرہ اِسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اِس سب میں مظہر ؔامام،علیم صباؔ نویدی، فارغؔ بخاری،یوسف جمالؔ، ظہیرؔ غازی پوری، بشیر بدرؔ، سلیمؔ احمد اور ظفرؔ اقبال کے نام خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔جدید حسیّت اور عصری حسیّت جیسے ادق موضوع پر بھی سیرحاصل بحث شاملِ کہانی ہے۔ اِس سلسلے میں بانیؔ، مجیدؔ امجد، منیرؔ نیازی، شکیبؔ جلالی، ثروتؔ حسین، غلام حسین ساجدؔ، عرفانؔ صدیقی وغیرہم کی شاعری پر کارآمد اور جامع بحث کتاب میں شامل ہے۔ اُردو غزل میںمابعدجدیدیت اور نئی نسل کے فکری و اُسلوبیاتی رجحانات پر بھی پُر مغز گفتگو کتاب کا اہم حصہ ہے۔اِس کے علاوہ مضافات میں تخلیق پانے والے شعر کو بھی نظرانداز نہیں کیا گیا۔ اِن حوالوں سے مختلف شعرأ کے کلام کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے، لیکن اِس سب سے حظ اُٹھانے اور اپنے تنقیدی و شعری کینوس کو وسیع کرنے کے لیے آپ کو ’’غزل کہانی ‘‘کا مطالعہ کرنا ہو گا، مکمل مطالعہ … اور میرا خیال ہے کہ اب مجھے آپ کے اور ’’ غزل کہانی ‘‘ کے درمیان مزید حائل نہیں رہنا چاہیے۔ اکرم کنجاہی کی تصنیف ’’غزل کہانی ‘‘ اُردو غزل کے طالبِ علموں… صرف طالبِ علم ہی کیوں، اُستادوں کے لیے بھی کارآمد ثابت ہو گی۔‘‘
۵۔ مابعدجدیدیت اور چند معاصر متغزلین(تحقیق و تنقید)
جناب اکرم کنجاہی نے اپنی اس تحقیق و تنقید کتاب کی بنیاد چار شاعروں پر تنقیدی و مطالعاتی مضامین پر رکھی ہے۔ جن میں انور شعور، جان کاشمیری، نسیمِ سحر اور ڈاکٹر منور ہاشمی شامل ہیں۔ اِس کتاب کا پیش لفظ پاکستان کے معروف شاعر، ادیب و صحافی جناب شفقت رسول مرزا نے لکھا ہے۔ آیے اُن کے الفاظ دیکھتے ہیں:
’’اکرم کُنجاہی ایک وسیع المطالعہ شخص ہیں۔ اُن کی مقامی اور عالمی ادب پر گہری نظر ہے۔ شاعری کی طرح تحقیق و تنقید کے میدان میں بھی وہ خوب کام کر رہا ہے۔
ہم پاکستانی اُردو تنقید کی حالیہ سوسالہ تاریخ کو سامنے رکھیں تو شاید ہم وہ کارنامے سر انجام نہیں دے سکے جس کی اشد ضرورت تھی۔ نئی تنقید میں بھی ہم چند کتب اور مضامین سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ ایسے حالات میں اکرم کُنجاہی جیسے بے لوث محقق اور نقاد کا منظرِ عام پر آنا خوش آیند ہے، اُن کی تمام جدید ادبی تھیوریز پر اچھی گرفت ہے۔ وہ ناقدینِ ادب کی صف میں کئی نام نہاد ناموں سے بہت آگے کھڑا ہے۔ وہ ایک قابلِ رشک شاعر، محقق اور نقاد ہیں۔
اکرم کُنجاہی چیزوں کو صاف، واضح اور کُھلے ڈُھلے انداز میں دیکھنے اور بیان کرنے کے قائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی شعری و ادبی تحریریں ہر قسم کے اُلجھائو اور ابہام سے خالی ہوتی ہیں۔ اُنھوں نے اس کتاب کے ہر مضمون میں کسی کی بات کو غلاف میںا پنی بات کو لپیٹ کر بیان نہیں کیا بلکہ ہر سطح پر خالص اپنی رائے قائم کرنے کی کوشش کی ہے، یہ اوریجنلٹی اُس کی اُن سے پہلے شایع ہونے والی کتب کا بھی وصف ہے۔ اُن کی تحقیقی و تنقیدی بصیرتوں میں عدل، اعتدال اور توازن کے قابلِ قدر نمونے موجود ہیں۔
اکرم کُنجاہی اُردو کے ادبی ماحول میں جمود شکن آدمی ہیں، وہ اپنی فکری جمالیات میں ٹھوس نظریات کے حامل ہیں۔ مغربی تھیوریز کے اس سیلاب میں کوئی بھی غیر متوازن علمی و نفسیاتی لہر اُس کے شخصی توازن کو بگاڑ نہیں سکتی۔
اُس کی تخیلی اور تحلیلی صلاحیتیں مشرقی مزاج اور طور طریقے سے مطابقت رکھتی ہیں جو مغربی نظریات اُس کے تشخص اور تہذیب سے متصادم ہیں وہ بڑی جرأت اور دلیری کے ساتھ اُن کو اپنی قلم فرسائی کے ذریعے شروعات سے ہی رد کر رہے ہیں۔
اُردو غزل ایک ایسی خوب صورت دوشیزہ کی مانند ہے کہ جسے کوئی بھی لباس پہنا دیا جائے تو بھی یہ دیدہ زیب دکھائی دیتی ہے۔ اس کے ہونٹوں کی مسکان کو ہر موسم راس آجاتا ہے۔ یہ جس نظریاتی آئینے میں سجی ہے اس کے چہرے کی تازگی اور دل کشی میں اضافہ ہوا ہے۔ اُردو مابعد جدیدیت کے ساتھ بھی یہ بڑے پُرکشش اسٹائل میں بغل گیر ہو رہی ہے۔ نئی غزل کے سرمائے کی تلاش کا کام جا ری ہے۔ اس کاوش کے دائرۂ کار کو پرانی نسل سے نئی نسل تک بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔
اکرم کُنجاہی نے اس کتاب میں اپنی تاثراتی غزلیہ مضمون نگاری کے لیے اُردو شاعری کے میدان سے جن چارناموں کا انتخاب کیا ہے بلاشبہ وہ پاکستان اُردو غزل کے اہم ستون ہیں۔ اُن کی غزل تازہ کاری کے لعل و جواہرات سے سجی ہوئی ہے۔ اُس نے ان کے فنی و فکری کائنات کو بڑی محنت، لگن اور ایمان داری کے ساتھ بڑی تفصیل سے اُجاگر کیا ہے۔ اُس کا وژن اِن شاعروں کی تفہیم میں سمت نما کا کام کرے گا۔
اُس نے اِن شاعروں کی فکری جہتوں کو اُجاگر کرنے کے لیے جو بیانیہ تشکیل دیا ہے وہ کسی ایسے ہی شخص کا طرئہ امتیاز ہے کہ جو شعر و ادب کی ساری قدیم و جدید رعنائیوں سے واقف ہو۔ ان مضامین میں اکرم کُنجاہی کافو کس شعرأ کی شخصیت کی بجائے اُن کے نظریۂ فکر و فن پر ہے۔‘‘
۶۔ پس جدیدیت لہجے اور اسلوب (تنقید)
یہاں یہ مناسب محسوس ہوتا ہے کہ اُن کی اہم زیرِ طبع کتاب ’’پس جدیدیت لہجے اور اُسلوب‘‘ کا بھی مختصر تعارف پیش کر دیا جائے کیوں کہ اِس کتاب کی اشاعت جون ۲۰۲۱ء میں متوقع ہے۔کتاب کا حصہ اوّل اہم ترین ہے کہ اِس میں پس جدیدیت کو تنقید نگاری، فکشن، غزل، نظم، ہائیکو، نعت اور مزاح نگاری کے پس منظر میں نہایت سہل اُسلوبِ بیان میں پرکھا گیا۔اِس سو صفحات کے پُر مغز مقالے میں دقیق اور ناقابلِ فہم ادبی اصطلاحات سے مقدور بھر اجتناب کیا گیا ہے۔ سادہ، رواں اور عام فہم انداز میں پسِ جدیدیت کا مفہوم اوررجحانات کو قاری تک منتقل کیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پس جدیدیت کے حوالے سے مقالے میں ترسیل و ابلاغ کا معیار ڈاکٹر فہیم اعظمی، ڈاکٹر وزیر آغا اور رؤف نیازی سے زیادہ بہتر ہے۔ مقالے کا ابتدائی حصہ ملاحظہ کیجیے:
’’اچھا ادب پوری زندگی پر محیط ہوتا ہے۔ اسی لیے بہ قول اختر الایمان مذہب کے بعد سب سے زیادہ تطہیرِ جذبات ادب ہی کرتا ہے۔ فی زمانہ یہ مختصر افسانے کی طرح زندگی کے کسی ایک رخ کی عکاسی نہیں کرتا بلکہ پوری زندگی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ہمارے عہد کا ادب کسی رجحان یا نظریے کی محبت یا تعصب کی بیساکھی پر نہیں کھڑا۔یہ سانس لیتی، بے حد و کنار اور بسیط فضاؤں میں آزاد پنچھی کی طرح پرواز کے لطف سے آشنا ہے۔اِس عہد میںکوئی نظریہ سازی نہیں۔ مزید براں پس جدیدیت کی بنیادکسی نظریہ یا رجحان کی نفی یا تنقیح پر بھی نہیں ہے۔در اصل اِس عہد تک آتے آتے دنیا نے صنعتی انقلاب بھی دیکھ لیا، زرعی اصلاحات کا مشاہدہ کر لیا، نو ابادیاتی نظام کو بھگت لیا، مارکس ازم اور کمیونزم کا عروج و زوال بھی دیکھ لیا، ادب میں اصلاحی، جدید اور ترقی پسندی کی تحاریک بھی دیکھ لیں۔حلقۂ اربابِ ذوق، نئی شاعری اور جدیدیت کی تازہ کاریاں ملاحظہ کیں۔ساری بحثیں، دلیلیں، منفی و مثبت پہلو سب اِس دور کے سامنے ہیں اور کیسی عجیب بات ہے کہ یہ عہد بھی برق پا لمحوں کی طرح ہوا ہوا جا رہا ہے۔
کیا ہمارا ادب اپنے عہد کے ساتھ سفر نہیں کر رہا…زندہ زبان و ادب کی تو یہ بنیادی خصوصیت ہے؟کیا میرا عہد ’’میں‘‘ کو ’’ہم‘‘ یا ’’ہم‘‘ کو ’’میں‘‘ بنا رہا ہے۔ کچھ تو نیا ہے کہ داخلیت، موضوعیت، اَنانیت اور ذات جیسے جدیدیت کے بنیادی عناصر پر دوبارہ فکر کے در وا ہوئے ہیں۔ ہم نے اِن الفاظ سے ورا بھی کچھ سوچنے کی کوشش کی ہے۔ جدیدیت نے فرد کی داخلیت کو موضوعی انداز میں ایسے ادب کا حصہ بنایا کہ زندگی کے بہت سے نما یاں گوشے اور اہم پہلو مثلاً عقائد، ثقافتیں، قومیتیں، رنگ و نسل، علاقے سب گویا ادب کے دائرۂ کار سے خارج ہو گئے۔ پس جدیدیت نے فرد کی انفرادیت یا موضوع کو ہی نہیں بل کہ’’ انسان مرکزیت‘‘ کے نظریہ بھی ختم کر دیا ہے۔ڈاکٹر وزیر آغا نے خوب صورت بات کہی کہ ’’ما بعد جدیدیت کے علم برداروں کے نزدیک دینا منظم ہم نوع اور مرتب نہیں رہی، بل کہ ایک شیشے کی طرح نظر آتی ہے، جس کی کرچیاں سطح پر بکھری دکھائی دیتی ہیں۔‘‘ آج غور کیجیے توتخلیقی ترسیل کا بحران بھی نہیں ہے یا کم از کم ادب کے قاری کی فکری سطح اتنی بلند ہو گئی ہے کہ وہ علامت کی تہہ داریوں کو سمجھنے لگا ہے۔
نئے عہد کی تخلیقیت میں صداقت بھی ہے اور نزاکت بھی، تہہ داری بھی ہے اور ترسیل بھی، روایت بھی ہے اور درایت بھی، ماضی کے نظریات کا احترام بھی ہے اور خود نظریہ سازی سے گریز بھی،معنویت بھی ہے اور فکریاتی بیکرانی بھی،قومی تشخص بھی ہے اور علاقائی ثقافت بھی۔ بات اتنی سی ہے کہ بعض دقیانوسی ہر نئی ایجاد اور اختراع سے خوف زدہ رہتے ہیں۔حالاں کہ افکارِ تازہ (فکری ہوں یا اُسلوبیاتی) ہر عہد اور انسانی ارتقا کا حصہ رہے ہیں:
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اُڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
(اقبال)
پسِ جدیدیت ہمارے عہد کے فکری میلانات، ادبی جمالیات،ثقافت اور تہذیب کو پیش کرنے والی ہمہ گیر اصطلاح ہے۔ہمہ گیر اِن معانی میں کہ ادب سے لے کرمعاش تک، مذہب سے لے کر سیاست تک، صنعت سے لے کر زراعت تک، طرزِ فکرو احساس سے لے کر ترسیل و ابلاغ تک، اُسلوب سے لے کر ہئیت تک، جمود سے لے کر تغیر تک، اعلیٰ اقدار سے لے کر معاشرتی انتشار تک،عالم گیریت سے لے کر مقامیت تک کچھ بھی اِس کے دائرۂ شعور و ادراک سے باہر نہیں ہے۔یوں کہیے کہ پس جدیدیت صرف علم، ادب اور فن تک ہی محدود نہیں بل کہ یہ پوری تہذیب اور زندگی سے متعلق ہے۔یہ زبان و بیان اور ذات کی حدوں سے متجاوز ہے۔اِس کا نعرہ ہے کہ سوچ کی محدود حبس گاہوں سے نکلنے کی اشد ضرورت ہے۔ اِس کے نزدیک حدیں سیاست کی ہوں یا ریاست کی، مذہب کی ہوں یا کلچر کی گم راہ کُن ہیں۔اِس کی نظر میں ادب کا کوئی مستقل منظر نامہ ترتیب نہیں دیا جا سکتا۔ ادب ہو یا کوئی دوسرا فن چوں کہ اِس کی جڑیںزبان، تہذیب، ثقافت اور معاشرت میں پیوست ہوتی ہیں جو از خود ابدی یا دائمی تصور کی حامل نہیں۔ پس ساختیات، ما بعد جدیدیت یا پس جدیدیت جو بھی نام دیجیے یہ مرکز گریز ہے۔ لامرکزیت اور محیط پر یقین رکھتی ہے۔ کیوں کی اِس کے نزدیک مرکز ساکت و جامد تصور کا نام ہے۔‘‘
کتاب کے دوسرے حصے میں پس جدید عہد سے تعلق رکھنے والے جن ۱۷ ؍اہم تخلیق کاروں کے فکر و فن پر مضامین دئیے گئے ہیں اُن میں عشرت معین سیما، دلاور علی آزر، فہیم شناس کاظمی،منظر عارفی، کاشف حسین غائر، کامی شاہ،شبیر نازش جیسے لکھاری شامل ہیں۔ کتاب کا دیباچہ ڈاکٹر شفیق آصف اور پسِ سر ورق ڈاکٹر روش ندیم نے تحریر کیا ہے۔
یہاں اِس بات کی وضاحت بھی کردوں کہ اکرم کنجاہی صاحب کی مذکورہ بالا پانچ کتابیں ایک ہی سال یعنی 2020ء میں شایع ہوئی ہیں اور اِنھیں میرے معروف اشاعتی ادارے’’ رنگِ ادب پبلی کیشنز،‘‘ کراچی نے زیورِ طباعت سے آراستہ کیا ہے۔جب کہ چھٹی کتاب لاہورسے شائع ہورہی ہے۔ میں یہ بھی گواہی دے رہا ہوں کہ جناب اکرم کنجاہی کی یہ کتابیں فروخت بھی ہو رہی ہیں یعنی قارئینِ شعر و سخن، ناقدینِ فنِ شاعری، طالبانِ علم و ادب اور مشاہیرِ اُردو ادب کے ساتھ ساتھ محققینِ اُردو ادب پسندکر رہے ہیں۔ مجھے غالب گمان اور قوی اُمید ہے کہ آنے والی نسل بھی اِن سے استفادہ کرے گی اور یہ نئے قارئین کے لیے بھی مشعلِ راہ ثابت ہوں گی۔
اُردو زبان و ادب آج جس مقام و مرتبے کے حامل ہیں اور جس نہج پر براجمان ہیں اور جہاں تک مایہ ناز ترقی کر چکے ہیں اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اِنھیں شروع ہی سے اہلِ زبان شعرأ و ادبأ کے ساتھ ساتھ دیگر زبان و ادب کے اہلِ قلم بھی میسر رہے۔ وہ اہلِ قلم جن کی مادری زبان اُردو نہیں تھی اُنھوں نے دامنِ اُردو ادب کو اپنی ایسی تخلیقات، تحقیقات، تصنیفات، تنقیدات اور معرکہ آرا تحریروں اور فن پاروں سے مالا مال کیا جو تاریخِ اُردو ادب کا حصہ بھی بنتے گئے۔ اِن شعرأ و ادبا اور ناقدین و مشاہیر نے اِنھیں اپنایابھی اور اِس کی ترقی و ترویج اور فروغ و اشاعت کے لیے اپنی زندگیاں نہ صرف وقف بلکہ صرف بھی کر دیں۔ اُردو زبان و ادب اور شعر و سخن کے لیے وہ کارہائے نمایاں سر انجام دئیے کہ آج اُن اہلِ قلم کا نام اور اُردو زبان و ادب لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں۔ میں اِس ضمن میں سب سے پہلا نام ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور آخری نام جناب اکرم کنجاہی کا لے رہا ہوں کیوں کہ جس لگن و جستجو سے جناب اکرم کنجاہی کا تنقیدی و تحقیقی کام منظرِ عام پر آ چکا ہے اور جس قدر زیرِ تصنیف اور منتظرِ اشاعت ہے اِس کی مثال پیش کرنا ممکن نہیں۔
مجھے قوی اُمید اور غالب گمان ہے کہ2021ء کے آخرتک اُن کا یہ تمام تحقیقی و تنقیدی کام پاکستان کے گوشے گوشے میں پھیل جائے گااورصرف میں ہی نہیں بلکہ اُن کے اِس وقیع سرمایۂ ادب کے معیار و مقدار کی روشنی میں وقت اُنھیں عصرِ حاضر کا نمایندہ تنقید نگار ثابت کر چکا ہو گا۔

Related posts

Leave a Comment