اکرم کنجاہی ۔۔۔ طاہرہ اقبال (مضمون)

طاہرہ اقبال

طاہرہ اقبال اِن دنوںگورنمنٹ کالج فار ویمن یونی ورسٹی، فیصل آباد میں صدر شعبۂ اُردو، ایک محقق، نقاد،اور فکشن نگار ہیں۔اِس وقت اُن کا شمار اہم فکشن نگاروں میں ہوتا ہے۔ طاہرہ اقبال نے چار افسانوی مجموعے سنگ بستہ، ریخت، گنجی بار، ایک ناولٹ مٹی کی سانجھ، نگین گم گشتہ سفر نامے تنقیدی کتب منٹو کااسلوب، پاکستانی اُردو افسانہ اور دو ناول نیلی بار اور گراں لکھے ہیں۔
اُن کے افسانے دیگر فکشن نگاروں کی نسبت قدرے طویل ہوتے ہیں کیوں کہ وہ اکثر دیہات کے پس منظر کو پیش کر کے کہانی کو آگے بڑھاتی ہیں اور جزئیات کا پورا خیال رکھتی ہیں۔اُنہوں نے بیدی، احمد ندیم قاسمی اور منٹو سے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔۲۰۱۰ء میں اُن کا تیسراافسانوی مجموعہ ’’ریخت‘‘ سامنے آیا، اِس سے پہلے ۱۹۹۹ء میں اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’سنگ بستہ‘‘ اور ۲۰۰۸ ء میں ’’گنجی بار‘‘ شائع ہوچکے تھے۔ آئیے اُن کے چند افسانوں کا فکری و اسلوبیاتی جائزہ لیتے ہیں’’ریخت‘‘کا دوسرا افسانہ’’گندا کیڑا‘‘ تھا۔ عورت کا انتقام نسلیں برباد کر دیتا ہے۔’’گوری‘‘ ملک اور اپسچ کے بیٹوں کی ہوس کا نشانہ بنتی ہے۔انتقام ملاحظہ کیجیے:
’’تو یہ جاننا چاہتا ہے کہ میں یہ گندا کیڑا کیوں رکھنا چاہتی ہوں تو سن! یہ تیرے لیے بھک مانگ کر لائے گا، تیرے گدھے چرائے گا۔یہ بھک اور چیتھڑوں میں لپٹا لحظہ لحظہ مریگا۔ لیکن میں اسے مرنے نہیں دوں گی تب میں است کشکول تھما کر حویلی کی طرف دھکا دوں گی اور تب کہوں گی۔ ملک جی جاؤ حویلی سے خیر پن کے لاؤ، تب میں…‘‘
’’ریخت‘‘…’’سوہنی‘‘گاؤں کے وسیب کے پس منظر میں، مرکزی کردار سوہنی جو یہ تاثر د ے کر کہ نہر میں ڈوب گئی ہے، ایک اجنبی کی محبت میں مبتلا ہو کر گھر چھوڑ دیتی ہے۔ بعد ازاں جب اس کا ضمیر کچوکے لگاتا ہے تو نفسیاتی الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں جن کا بیان اور اس کی کرافٹ فنی مہارت کا ثبوت ہے۔
ریخت میں ’’چرواہا‘‘ ایک بے وقعت اورحقیر چرواہے کی کہانی ہے۔گاؤں کا دیہاتی ماحول جہاں چودہری لوگوں کے جان و مال اور عزتوں کا مالک ہوتا ہے۔ جب چرواہا اپنی عصمت کی بے توقیری دیکھتا ہے تو انتقام کا طاقتور جذبہ، اُسے مجبور کرتا ہے اور چودہری اس کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔ دیہات کے پس منظر میں ایک عمدہ مزاحمتی رویے پر مبنی افسانہ ہے۔
’’سنگ بستہ‘‘ کا افسانہ ’’خراج‘‘ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی آمنہ علی اور سائیکل مکینک غفور احمد کے بے جوڑ رشتے کی بظاہر ایک کہانی ہے مگر دیکھا جائے تویہ بھی ہمارے عہد کا ایک بڑامسئلہ بن چکا ہے۔بچیاں زیادہ تعلیم یافتہ ہو گئی ہیں۔ اُن کی تعلیمی قابلیت اکثر لڑکوں سے زیادہ ہوتی ہے مگر سماجی نا ہمواری اور طبقاتی اونچ نیچ کی وجہ سے لڑکیوں کے معیار کے رشتے نہیں ملتے۔
’’سنگ بستہ‘‘ میں شامل اُن کا افسانہ ’’پس منظر‘‘ اپنی تاثیر اور زورِ بیان کی وجہ سے قاری پر سحر طاری کر دیتا۔مرکزی کردار ’’نازو‘‘ گاؤں کی ایک الہڑ دوشیزہ ہے۔ ہر وقت اپنے ناز و ادااور اپنے توبہ شکن حسن سے لوگوں پر سحر طاری کرنے والی، حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہو کر وقت سے پہلے اپنی صحت، اپنا حسن اور سراپا ماضی کی کھنڈرات میں چھوڑ آتی ہے۔تپ دق کا شکار ہو جاتی ہے۔ افسانے کی آخری لائنیں:
’’میرا اُس سے کوئی قلبی تعلق نہ سہی۔وہ میرے نو عمری کے رومانوی اور وجدانی عہد کا حسین ماضی تو تھی۔وہ گاؤں کی جمالی اوررومانی زندگی کا سب سے بڑا محرک تھی۔ رنگ بکھیرتی، خوشبوئیں لنڈھاتی اور قہقہے اُڑاتی۔اُس کے رنگوں، خوشبوؤں اور قہقہوں کے مستفیدگان نجانے کہاں گم تھے۔‘‘ بعض اوقات کئی لوگ اپنے مخصوص پس منظر اور حالات کے ہمراہ سرعت سے اپنے منطقی انجام سے دوچار ہو جاتے ہیں۔
اُن کی عورت معاشرے اور خاص طور پر دیہی سماج کے جبر کا شکار ہے۔ ’’گنجی بار‘‘ کی کینی اس کی بہتر مثال ہے۔ ماں اپنے مرتے ہوئے بیٹے کو معصوم بچی کینی کی گود میں ڈال کر فرار ہو جاتی ہے۔ بھائی مر جاتا ہے تو وہ سفاک زمانے کے ظلم سہنے اور دکھ اٹھانے کے لیے اکیلی رہ جاتی ہے۔ جوانی کی دہلیز پر، ہوس کے پجاریوں کی ہتھے چڑھ جاتی ہے، مان بن جاتی ہے، اب وہی عزتوں کے تاجر ہیں۔مذہب و شرعیت کی لاٹھی لے کر آ جاتے ہیں۔ اپنے بچے کو بچاتے بچاتے جان کی بازی ہار جاتی ہے۔اُن کے افسانے ماں ڈائن اور گنجی بار بھی اُردو ادب کے چند اچھے افسانوں میں شمار کیے جانے کے لائق ہیں۔
کتاب ’’ریخت‘‘ میں انہوں نے جاگیر دار ملک گام، دستگیر اور چھمبی ماچھن کے عشق کی کہانی بیان کی ہے۔معاشرے کے نچلے طبقے، کسان، ترکھان اور مچھیروں پر بات کی ہے۔جاگیر دار نہ صرف اُں کے خون پسینے کی کمائی پر ہاتھ صاف کرتے ہیں بلکہ اُن کی عزتوں کو بھی سامانِ عیش وطرب بناتے ہیں۔ریخت کا افسانہ ’’امیر زادی‘‘ بھی بظاہر ایک گھریلو ملازمہ بچی کی کہانی ہے جو غربت و افلاس کی وجہ سے،آخر کسی جنسی درندے کی ہوس کا شکار ہو جاتی ہے۔یہ ایک بچی ہی کی نہیں پورے معاشرے کی ملازم بچیوں کی کہانی ہے۔
’’نیلی بار‘‘کو پنجاب کا مہا بیانیہ قرار دیا گیاہے۔ طاہرہ اقبال نے نیلی بار، میں یہ بتایا ہے کہ ہمارا وطن آزادی کے بعد ایک بار پھر جاگیر داروں، وڈیروں، اور سر مایہ داروں کے شکنجے میں چلا گیا۔ بیورو کریسی میں بھی اُن کے گماشتے چھا گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عوام آج بھی بنیادی حقوق کو ترس گئے ہیں۔معیشت اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہے۔قانون اُن کی لونڈی ہے۔ اجاگیردار مزدور خواتین کو لونڈی کے طور پر استعمال کر کے پھینک دیتے ہیں۔
ناول کے مرکزی کردار علی جواد اور زارا فتح شیر ہیں دونوں کلاس فیلو ہیں علی جواد غریب باپ کا بیٹا ہے جبکہ زارا فتح شیر ایک سر مایہ دار کی بیٹی ہے دونوں میں نا چاہتے ہوئے بھی شادی ہو جاتی ہے لیکن جلد ہی طلاق ہو جاتی ہے۔ علی جواد جو پہلے اشتراکیت کا سرگرم رکن تھا، اب مذہبی لبادہ پہن کر علی محمد معاویہ بن جاتا ہے۔ مدرسوں میں تربیت دینے کا کام سر انجام دیتا ہے زارا فتح شیر جس سرمایہ دار کی بیٹی ہے اس کو گھر میں مختلف پابندیوں کا سامنا کرنا پڑھتا ہے اور محض بیٹے کی خاطر ایک مولوی کی چوتھی بیوی بن جاتی ہے مگر الیکشن میں بی اے کی شرط لازمی ہوتی ہے تو مولوی صاحب اپنی روشن خیال بیوی کو انتخاب لڑنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ وہ جیت کر وزیر مذہبی امور بن جاتی ہے۔ علی جواد کو جن لوگوں نے مولوی محمد علی معاویہ بنایا تھا وہی اسے قتل کر دیتے ہیں۔
ناول میں کے مکالمے اور زبان اُس ہی ماحول کی عکاس ہے جس میں وہ تحریر کیا گیا ہے۔ اسلوب نہایت جاندار ہے۔زبان وبیان کے لحاظ سے بھی بہت عمدہ ناول ہے اکثر جگہ پنجابی الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ ناول ’نیلی بار‘ اصل میں اسی دریائے راوی اور دریائے ستلج کے درمیانی علاقے کا بیانیہ ہے۔نیلی بار موجود صدی کے ناولوں میں خوب صورت اضافہ ہے
طاہرہ اقبال لازمی طور پر اپنی کہانی کی بنیاد کسی مضبوط پلاٹ پر رکھتی ہیں۔ کردار نگاری اور مکالہ نگار ی میں بھی دستِ کامل حاصل ہے۔طاہرہ کے اکثر کردار جہالت اور پسماندگی کی پیدا وار ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اسلوبِ بیان میں کوئی غیر روایتی قسم کی علامت نگاری اور تجرید نہیں۔اِس کا سبب یہ ہے کہ اُن کی تخلیقات میں کم کم ہی کوئی ایسا افسانہ ہو گا جو محض ذہنی و فکری انبساط کے لیے تحریر کیا گیا ہو اور ہماری زندگی کے کسی نہ کسی مسئلے سے جڑا ہوا نہ ہو۔اُن کا رویہ مزاحمتی ہے اور وہ ہمارے دیہی سماج کی روایتی بوسیدہ معاشرت پر خوب لکھتی ہیں لیکن وہ ہماری مشرقی تہذیب اور اخلاقی اقدار کے خلاف کہیں بھی منفی ردِ عمل ظاہر نہیں کرتیں۔
٭

Related posts

Leave a Comment