اکرم کنجاہی ۔۔۔ الطاف فاطمہ (تعارف)

الطاف فاطمہ الطاف فاطمہ اُردو کی ممتاز فکشن نگار، مترجم، محقق اور ماہرتعلیم تھیں۔وہ ۱۹۲۹ء میں لکھنو میں پیدا ہوئیں۔قیامِ پاکستان کے بعد اپنے عزیزوں کے ساتھ لاہور منتقل ہو گئیں۔گورنمنٹ اسلامیہ کالج برائے خواتین میں درس و تدریس سے وابستہ رہیں۔۲۰۱۸ء میں انتقال ہوا۔اُن کا پہلا افسانہ ۱۹۶۲ء میں موقر ادبی جریدے ادبِ لطیف، لاہور میں شائع ہوا۔اُن کے افسانوی مجموعوں میں تار عنکبوت، جب دیواریں گریہ کرتی ہیں اور وہ جسے چاہا شامل ہیں مزید براں انہوں نے جاپانی افسانہ نگار خواتین کے ترجمہ کے ساتھ برصغیر کی…

Read More

اکرم کنجاہی ۔۔۔ نسائی فکشن کا ارتقا

نسائی فکشن کا ارتقا داستان، ناول اور افسانہ کہانی کی مختلف شکلیں ہیں، فکری و اسلوبیاتی حوالے سے جن کی اپنی اپنی خصوصیات ہیں۔طلسماتی فضائیں تشکیل دینے،فوق الفطر ت اور محیر العقل قصے بیان کرنے میں داستان کا ثانی نہیں۔ناول ہمارے ماحول اور معاشرت سے جڑا ہوا ہے۔ وہ جنوں کے بادشاہ، پریوں کے دیس، شہزادوں اور شہزادیوں کی رومانی داستانیں بیان نہیں کرتا بل کہ ہماری اور ہماری عہد کی زندگی کے مثبت و منفی پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔افسانہ وحدتِ تاثر کی حامل مختصر کہانی ہے جو ناول…

Read More

اکرم کنجاہی ۔۔۔ تسنیم کوثر (مضمون)

تسنیم کوثر لاہور میں مقیم معروف شاعرہ اور افسانہ نگارہ تسنیم کوثر کے افسانوی کردار عمومی طور پرمختلف ہوتے ہیں۔جیسے اُن کے افسانے ’’لینڈ لیڈی‘‘ کا مرکزی کردار ’’زینی‘‘ یا پھر ’’بھاری قیمت‘‘ کا مرکزی کردار ’’بھاگاں۔‘‘ اُن کے ہاں تانیثیت بھی جھلکتی ہے۔مرد اساس معاشرے میں عورت کی مجبوریوں کی عکاسی خوب ہے۔عورت کا شوہر   کس طرح اُس کی وفا داری اور قربانیوں کو فراموش کر کے بے حس پتھر بن جاتا ہے۔نسائی مسائل کو انہوں نے اِس حوالے سے اعتدال اورمتوازن انداز میں پیش کیا ہے کہ اُس…

Read More

اکرم کنجاہی ۔۔۔ بسمل صابری (مضمون)

بسمل صابری وہ عکس بن کے مری چشمِ تر میں رہتا ہےعجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے اُردو ادب سے دلچسپی رکھنے والا شاید ہی کوئی شخص ہو گا جس نے یہ شعر نہ سنا ہو۔بسمل صابری کے اِس شعر نے مقبولیت کا بڑا سفر طے کیا ہے۔ اس شعر میں محبت کا والہانہ پن، ہجر و فراق کا کرب، نا تمامی و بے ثمری کا سوز و گداز اور جذبے کی صداقت قاری پر سحر طاری کر دیتی ہے۔ موصوفہ ساہیوال میں مقیم ہیں۔ کبھی مشاعرے…

Read More

اکرم کنجاہی ۔۔۔ صالحہ عابد حسین (مضمون)

صالحہ عابد حسین صالحہ عابد حسین نے زندگی کے کھیل اور نقشِ اول جیسے ڈرامے بھی لکھے مگر انہیں شہرت ناول نگاری سے حاصل ہوئی۔اس کے علاوہ  ’’یادگارِ حالی‘‘، ’’خواتینِ کربلا کلامِ انیس کے آئینے میں‘‘  اور ’’جانے والوں کی یاد آتی ‘‘ہے ان کی اہم تصانیف ہیں لیکن انہیں دائمی شہرت ایک ناول نگار کی حیثیت سے حاصل ہوئی۔مصنفہ کا پہلا ناول عذر  ا ۱۹۴۲ء میں شائع ہوا۔ پھر آزادی کے بعد ان کے ناولوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا۔آتش خاموش،قطرے سے گہر ہونے تک، راہ عمل، اپنی…

Read More

اکرم کنجاہی ۔۔۔ شبنم شکیل(مضمون)

شبنم شکیل ۱۹۶۰ ء کے عشرے میں جو شاعرات  اُردو ادب میں سامنے آئیں، اُن میں ایک اہم نام شبنم شکیل کا بھی ہے۔ابتدائی طور پر کالج کے مشاعرے اُن کی پہچان بنے۔وہ اچھا شعر کہنے کے ساتھ خوش آواز بھی تھیں۔ ممکن ہے اِس میں ریڈیو سے اُن کی وابستگی کا بھی حصہ رہا ہو۔جہاں اُن کی تربیت میں صوفی غلام مصطفی تبسم، مصطفی ہمدانی،قتیل شفائی، انور سجاد نے بھی کچھ نہ کچھ کردار ضرور ادا کیا۔اگرچہ وہ سیّد عابد علی عابد جیسے بلند قامت شاعر ، مفکر، دانش…

Read More

اکرم کنجاہی … مرگِ آرزو

مرگِ آرزو …………… اے دل! مرگِ آرزو کا تم کبھی ماتم نہ کرنا یہ وہ اندوہِ پنہاں ہے کہ جس پر کوئی بھی اظہارِ تعزیت نہیں کرتا یہ مانا کارِ ہستی لینے کچھ دینے سے چلتا ہے مگر دنیا میں پیارے لوگ ایسے بھی تو ہوتے ہیں جو دنیا سے کسی بھی جنس کی صورت کچھ نہیں لیتے وہ خود تقسیم کرتے ہیں اپنی محنت کے ثمر اور صلے کی آرزو مندی نہیں کرتے اِس لیے، دل درد آشنا میرے اندوہِ ناکامی کا مداوا کر لینا ہی بہتر ہے تم…

Read More

اکرم کنجاہی ۔۔۔ اس محبت کے دئیے کرب کے پہلو کتنے

اس محبت کے دئیے کرب کے پہلو کتنےدرد جاگے، تو جگا جاتا ہے آنسو کتنے اپنی مٹھی میں لیے اورمرے رستوں کےدیکھ! سورج نے فنا کر دئیے جگنو کتنے زندگی جون کی جب دھوپ بنی،یاد رہےسایہ سایہ سے ہمہ وقت تھے گیسو کتنے آنکھ جھپکی تھی، خطا تھی کہ کوئی بھول سی تھی روز اِس رو ح کے عنقا ہوئے آہو کتنے کتنے ظالم ہیں گزرتے ہوئے ایّام کہ اب آئنہ توڑ کے خوش باش ہیں کم رو کتنے ذات میری ہو کہ تیری، ہے یہاں بکھری پڑی ہم محبت…

Read More

نعت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم …. اکرم کنجاہی

نظر ہی آدمی کی جب نہ حالِ زار تک پہنچےجو آنسو قیمتی ہے وہ مری سرکار تک پہنچےبھری دنیا میں خیمہ زن خزائیں دیکھ کر مولاعنادل سب مدینے کے گُل و گُلزار تک پہنچےکوئی میں آہ کھینچوں درد سے لب ریز ہو شاہا!ترے پیارے مدینے کے در و دیوار تک پہنچےبلالیؓ عشق ہے میرا نہیں تاثیر سے خالیاذاں میری سحر والی اُفُق کے پار تک پہنچےزمین و آسماں تک جو حسین و خوب صورت ہےجہانِ آب و گِل میں کب ترے شہکار تک پہنچےکوئی بھی راز تیرا دو جہاں میں…

Read More