غلام حسین ساجد… مبتلا ہے اور ہی شاید کہیں اب مری دھوپ

Read More

غلام حسین ساجد ۔۔۔ مبتلا ہے اور ہی شاید کہیں اب میری دھوپ

Read More

میر غلام بھیک نیرنگ

ابھی تشخیصِ مرض میں ہے  طبیبوں کو کلام جاں ادھر درپئے رخصت ہے، خدا خیر کرے

Read More

غلام حسین ساجد

رات اور طرح کی ہے چراغ اور طرح کا یعنی ہے مری نیند کا باغ اور طرح کا

Read More

امیر خسرو ۔۔۔ من از دست دل دوش دیوانہ بودم

من از دست دل دوش دیوانہ بودم ہمہ شب در افسون و افسانہ بودم میں کل دل کے ہاتھوں سے دیوانہ تھا سراپائے افسون و افسانہ تھا ز دل شعلہء شوق می زد بیادش بران شعلہء شوق، پروانہ بودم کوئی یاد دل سے اُبھر کر اُٹھی فروزاں تھا شعلہ، مَیں پروانہ تھا بمسجد رود صبح ہر کس بمذہب من نا مسلمان بہ بتخانہ بودم مسلماں تھے مسجد میں محوِ دعا مَیں کافر رواں سوئے بت خانہ تھا دل و جان و تن با خیالش یکی شد ہمین من در آن…

Read More

غلام حسین ساجد ۔۔۔ کسی نگاہ کی زد پر ہے باغِ سبز مرا

کسی نگاہ کی زد پر  ہے باغِ سبز مِرا کہ زرد پڑنے لگا ہے چراغِ سبز مِرا سمجھ میں آ نہ سکا بھید اُس کی آنکھوں کا اُلٹ کے رہ  گیا آخر دماغِ سبز مِرا پلٹ کے آئی نہیں چھاؤں اُس کے کوچے سے دَھرا ہے دُھوپ میں اب تک ایاغِ سبز مِرا یہ معجزہ ہے زرِ عشق کی صداقت کا کسی کے دل میں دھڑکتا ہے داغِ سبز مِرا بدل گئی جو کبھی رنگ و نُور کی تہذیب نہ مِل سکے گا کسی کو سراغِ سبز مِرا گیاہ و…

Read More

غلام محمد قاصر

قاصر! وفا کے پیڑ کا قصہ عجیب ہے شاخیں کھڑی ہیں پَھل کا سہارا لیے ہوئے   ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجموعہ کلام: تسلسل مکتبہ فنون، انارکلی، لاہور دسمبر 1977ء

Read More

ﺑﻦ ﻣﯿﮟ ﻭﯾﺮﺍﮞ ﺗﮭﯽ ﻧﻈﺮ، ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﻝ ﺭﻭﺗﺎ ﮨﮯ ۔۔۔ غلام محمد قاصر

بَن میں ویراں تھی نظر، شہر میں دل روتا ہے زندگی سے یہ مِرا دوسرا سمجھوتہ ہے لہلہاتے ہوئے خوابوں سے مری آنکھوں تک رت جگے کاشت نہ کرلے تو وہ کب سوتا ہے جس کو اس فصل میں ہونا ہے برابر کا شریک میرے احساس میں تنہائیاں کیوں بوتا ہے نام لکھ لکھ کے تِرا، پھول بنانے والا آج پھر شبنمیں آنکھوں سے ورق دھوتا ہے تیرے بخشے ہوئے اک غم کا کرشمہ ہے کہ اب جو بھی غم ہو مرے معیار سے کم ہوتا ہے سوگئے شہرِ محبت…

Read More

اِسی دن ۔۔۔ غلام محمد قاصر

اِسی دن ۔۔۔۔۔ اِسی دن آسمانی خواب کی ہم نے ہری تعبیر پہنی تھی ہمارے ہاتھ میں نصرت کا پرچم اور امکانات کے پھولوں کی ٹہنی تھی ہم اس کی خواب گوں جھنکار سے آگے نکل آئے کئی نسلوں نے جو زنجیر پہنی تھی سنہرے لفظ دیواروں پہ کندہ ہوتے جاتے تھے اجالوں کی طرف چُپکے سے وہ ہم کو بلاتے تھے سبھی تسلیم کرتے ہیں وہی بنتا ہے سچائی کو جب تجسیم کرتے ہیں ہم اپنے رہنما کی اس طرح تعظیم کرتے ہیں کہ اس کے خواب کو تقسیم…

Read More

غلام حسین ساجد

شام ہے اور سرخ پیڑوں کے دہکتے سائے ہیں نیند میں بہتا ہوا دھارا ہے جوئے آب کا

Read More