غلام حسین ساجد…. بیاں اس بزم میں میری کہانی ہو رہی ہے

بیاں اُس بزم میں میری کہانی ہو رہی ہے ادائے خاص سے رنگیں بیانی ہو رہی ہے مہک آتی ہے اِک سیلی ہوئی آزردگی کی کوئی شے ہے جو اِس گھر میں پرانی ہو رہی ہے نظر آتے نہیں اَب شام کو اُڑتے پرندے تو کیا اِس شہر سے نقل مکانی ہو رہی ہے؟ بُلاوا آ گیا ہے اب کسے کوہِ ندا سے مری اطراف میں کیوں نوحہ خوانی ہو رہی ہے؟ لبوں پر ہے کسی شیریں دہن کے ذکر میرا خزاں کی شام ہے اور گل فشانی ہو رہی…

Read More

ڈیزی کٹر ۔۔۔ غلام حسین ساجد

ڈیزی کٹر ۔۔۔۔ ریت میں ڈھلتے پتھر پانی ہوتی ریت دھند میں چھپتا پانی دھوپ میں جلتی دھند دھوئیں میں گھلتی دھوپ نیند میں بہتا زہر سلگ اٹھے ہیں ایک طلسمی آنچ سے کتنے شہر کون ہے جس نے خواب نگر پر ڈھایا ہے یہ قہر!

Read More

بدل گئی ہے بہت آس پاس کی صورت (غلام حسین ساجد) ۔۔۔۔ نوید صادق

بدل گئی ہے بہت آس پاس کی صورت (دیباچہ: مجموعہ کلام "اعادہ”) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستر کی دہائی اُردو غزل میں ایک انقلاب کی دہائی ہے۔ ثروت حسین، محمد اظہارالحق اور غلام حسین ساجد اِس انقلاب کے بڑوں میں سے نمایاں نام ہیں۔ثروت حسین نے ایک قلیل عرصۂ شعر میں اپنے انمول اور انمٹ نقوش ثبت کرنے کے بعد موت کو گلے لگا لیا، محمد اظہارالحق کچھ عرصہ بعد تقریباً خاموش ہو گئے۔ اب ان کی کبھی کبھار کوئی غزل نظر پڑتی بھی ہے تو یہی احساس ہوتا ہے کہ وہ ستّر…

Read More

غلام محمد قاصر ….. یوں تو صدائے زخم بہت دور تک گئی

یوں تو صدائے زخم بہت دور تک گئی اِک چارہ گر کے شہر میں جا کر بھٹک گئی خوشبو گرفتِ عکس میں لایا اور اس کے بعد میں دیکھتا رہا تری تصویر تھک گئی گُل کو برہنہ دیکھ کے جھونکا نسیم کا جگنو بجھا رہا تھا کہ تتلی چمک گئی میں نے پڑھا تھا چاند کو انجیل کی طرح اور چاندنی صلیب پہ آکر لٹک گئی روتی رہی لپٹ کے ہر اک سنگِ میل سے مجبور ہو کے شہر کے اندر سڑک گئی قاتل کو آج صاحبِ اعجاز مان کر…

Read More

غلام ہمدانی مصحفی

گرفتاری پہ میری بس کہ آہن گریہ کرتا ہے رواں ہوتا ہے چشمِ حلقۂ زنجیر سے پانی

Read More