قمر رضا شہزاد، غلام حسین ساجد، حامد یزدانی، محمد خالد، غلام محمد قاصر، لطیف ساحل

قمر رضا شہزاد، غلام حسین ساجد، حامد یزدانی، محمد خالد، غلام محمد قاصر، لطیف ساحل

Read More

فضل گیلانی ۔۔۔۔۔ اس لیے بھی مجھے تجھ سے ملنے میں تاخیر ہے

اس لیے بھی مجھے تجھ سے ملنے میں تاخیر ہے خواب کی سمت جاتی سڑک زیرِ تعمیر ہے اتنے پھول اک جگہ دیکھ کر سب کا جی خوش ہوا پتیاں جھڑنے پر کوئی کوئی ہی دلگیر ہے ہنستی دنیا ملی آنکھ کھلتے ہی روتی ہوئی یہ مرا خواب تھا اور یہ اس کی تعبیر ہے جس زباں میں ہے اس کی سمجھ ہی نہیں آ رہی غار کے دور کے ایک انساں کی تحریر ہے رحم کھاتی ہوئی کتنی نظروں کا ہے سامنا میری حالت ہی شاید مرے غم کی…

Read More

فضل گیلانی ۔۔۔۔۔۔ یہ رواں اشک یہ پیارے جھرنے

یہ رواں اشک یہ پیارے جھرنے میرے ہو جائیں یہ سارے جھرنے منظر آلودہ ہوا جاتا ہے کس نے دریا میں اُتارے جھرنے کسی امکان کا پہلو ہیں کوئی تری آواز، ہمارے جھرنے اتنی نمناک جو ہے خاک مری کس نے مجھ میں سے گزارے جھرنے مجھ میں تصویر ہوے آخرِ شب خامشی، پیڑ، ستارے، جھرنے ایک وادی ہے سرِ کوہِ سکوت اور وادی کے کنارے جھرنے دیکھو تو بہتے ہوے وقت کی رَو اب ہمارے ہیں تمہارے جھرنے کیا بتائوں میں انھیں، تو ہی بتا پوچھتے ہیں ترے بارے…

Read More

ہمزاد ۔۔۔۔۔۔ نجیب احمد

ہمزاد ۔۔۔۔۔ مجھے کوزہ بنانے کا ہنر اب تک نہیں آیا ازل سے چاک پر آنسو گندھی مٹی دھری ہے مگر کچھ ذہن میں واضح نہیں ہے تصور ہے بھی تو بس ایک دھندلا سا تصور تصور ، جو کسی بھی نقش میں ڈھلتا نہیں ہے مرے اندر کوئی تصویر گڈمڈ ہو رہی ہے نہ جانے کون مجھ میں رو رہا ہے رواں آنکھوں سے پانی ہو رہا ہے درونِ ذات گہرے پانیوں میں بسنے والی سرد ظلمت کا تماشا ہے دکھائی کچھ نہیں دیتا دیے میں تیل جلتا جا…

Read More

فالتو سامان ۔۔۔۔۔۔ نجیب احمد

فالتو سامان ………….. مرا کمرہ مرا گھر ہے مرے گھر پر مرے بچوں نے قبضہ کر لیا ہے کتابوں سے بھرے کمرے میں اک کرسی تھی اور اک میز تھا اور                       میز پر کاغذ قلم کے ساتھ ہی تصویر رکھی تھی تری تصویر رکھی تھی نگارِ جاں! تری تصویر رکھی تھی تلاشِ رزق میں گھر سے نکلتا، شام کمرے میں قدم رکھتا کتابوں کی طرف بڑھتا تو دن بھر کی تھکن کافور ہو جاتی رگ و پے میں توانائی…

Read More

غلام محمد قاصر ….. یوں تو صدائے زخم بہت دور تک گئی

یوں تو صدائے زخم بہت دور تک گئی اِک چارہ گر کے شہر میں جا کر بھٹک گئی خوشبو گرفتِ عکس میں لایا اور اس کے بعد میں دیکھتا رہا تری تصویر تھک گئی گُل کو برہنہ دیکھ کے جھونکا نسیم کا جگنو بجھا رہا تھا کہ تتلی چمک گئی میں نے پڑھا تھا چاند کو انجیل کی طرح اور چاندنی صلیب پہ آکر لٹک گئی روتی رہی لپٹ کے ہر اک سنگِ میل سے مجبور ہو کے شہر کے اندر سڑک گئی قاتل کو آج صاحبِ اعجاز مان کر…

Read More